وزیراعظم کا بروقت اقدام، آزاد کشمیر کے عوام کیلئے بڑا ریلیف

وطن عزیز کے زیر انتظام کشمیر امن و امان کا گہوارہ رہا ہے۔ جنت نظیر میں بسنے والے شہری پُرامن اور پاکستان کے ساتھ انتہائی وفاداری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بجلی خاصی مہنگی ہے۔ اس تناظر میں بجلی کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑانے اور سستے ذرائع بروئے کار لانے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس کی جاتی ہے۔ پچھلے چند سال سے بجلی کے نرخ متواتر بڑھتے رہی ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے بجلی کی زائد قیمتوں کے باعث آزاد کشمیر کے عوام میں خاصی بے چینی اور تشویش پائی جاتی تھی۔ گزشتہ دو تین روز سے گراں آٹے اور بجلی کے خلاف آزاد کشمیر میں احتجاج کے سلسلے تھے۔ پہیہ جام اور شٹر ڈائون ہڑتال جاری تھی۔ حکومتی کمیٹی اور آزاد جموں و کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان معاملات کے حل کے لیے مذاکرات بھی ہوئے، پورے ملک میں آزاد کشمیر کی صورت حال پر تشویش کی لہر پائی جاتی تھی۔ عوامی سطح پر بھرپور احتجاج کے سلسلے تھے۔ حکومت پاکستان نے اس موقع پر انتہائی بردباری اور دانش مندی کا ثبوت دیا اور اس حوالے سے بڑا فیصلہ کر ہی ڈالا، جس کے نتیجے میں آٹا اور بجلی کی قیمتوں میں بڑی کمی کردی گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 23ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی۔ محمد شہباز شریف کے زیر صدارت آزاد کشمیر کی حالیہ صورت حال پر اسلام آباد میں خصوصی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، آزاد حکومت کے وزراء اور اعلی سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی وزراء اور اتحادی جماعتوں کے زعماء نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں حالیہ صورت حال کا مفصل جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کشمیری عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے 23ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی۔ کشمیری قیادت اور جملہ شرکا نے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا۔ اس فیصلے کے فوراً بعد آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔ آزاد جموں و کشمیر محکمہ توانائی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ گھریلو استعمال کی بجلی کے لئے ایک سے 100یونٹ تک بجلی کی قیمت 3روپے فی یونٹ ہوگی۔ 101سے 300یونٹ تک 5 روپے جبکہ300سے زیادہ یونٹس کے استعمال پر6روپے فی یونٹ ہو گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمرشل استعمال پر 300 یونٹ استعمال پر بجلی کی فی یونٹ قیمت 10روپے ہو گی۔ 300سے زائد یونٹس کے استعمال پر فی یونٹ بجلی کی قیمت 15روپے ہوگی۔ بعد ازاں وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق نے کابینہ ارکان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سستی بجلی اور سستی روٹی کے مطالبات کو کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا، وزیراعظم پاکستان نے معاشی مشکلات اور تحفظات کے باوجود فوری طور پر بجلی اور گندم پر سبسڈی کے نوٹیفکیشن جاری کر دئیے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے آٹے کا ریٹ 3100روپے فی من تھا، جس پر 1100روپے سبسڈی دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں نئی قیمت 2ہزار روپے من ہوگئی، اس سے قومی خزانے پر 23ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا، جس کو وزیراعظم نے خوش دلی سے منظور کیا، ان معاملات کو حل کرنے کیلئے فوج کے سربراہ نے اہم کردار ادا کیا۔ آزاد کشمیر میں 40کلو آٹے کا تھیلا 2ہزار روپے اور ایک کلو آٹا 50روپے کا ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان کا یہ اقدام انتہائی احسن اور ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے بروقت اور مناسب فیصلہ کرکے آزاد کشمیر کے عوام کو بڑا ریلیف دیا ہے، 23ارب روپے کی فوری فراہمی حکومت وقت کی عظیم کاوش ہے، جس کی جتنی بھی توصیف کی جائے، کم ہے۔ آٹے میں 11سو روپے فی من سبسڈی دی گئی ہے جس سے آٹا 2ہزار روپے من کر دیا گیا ہے جب کہ 101سے 300یونٹ تک بجلی 5روپے جب کہ 300سے زائد یونٹس کے استعمال پر 6روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ہوگی۔ آزاد کشمیر کے عوام اس فیصلے پر خوشی سے نہال دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کو درپیش بڑے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ آزاد کشمیر کی قیادت بھی اس فیصلے پر خوش دِکھائی دیتی ہے۔ اس مسئلے کے حل میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ان شاء اللہ آزاد کشمیر کے عوام کو اس بڑے ریلیف سے خاطرخواہ فوائد ملیں گے اور اُن کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری طرف ہم ان سطور کے ذریعے حکومت سے گزارش کریں گے کہ ملک میں بجلی بے پناہ گراں ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی قیمت میں خاطرخواہ کمی کے لیے اس کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج نجات میں ہی بہتری ہے۔ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے منصوبے لگائے جائیں اور انہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر تعمیر کے منصوبے منظور کیے جائیں اور ان کی جلد تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے ناصرف آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا بلکہ اس کے ذریعے وافر بجلی کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا۔ یوں پورے ملک کے عوام کو سستی بجلی کی فراہمی کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
مائوں کیلئے محض ایک دن ہی کیوں؟
بلاشبہ ماں خدا کی جانب سے عطا کی گئی سب سے بڑی نعمت ہے ، اس کی عظمت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ یہ انسان کی پہلی درس گاہ اور اُس کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں اسی عظیم ہستی کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ افسوس ہمارے ہاں محض ایک دن مائوں کے نام کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس عظیم رشتے کا حق ادا کر دیا گیا۔ مائوں کے لیے تو پورا سال ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ چھوٹی عمر میں مائوں نے تو اپنی اولادوں کے لیی کوئی ایک دن مخصوص نہیں کیا ہوتا، وہ تو کئی برس تک بغیر کسی غرض کے اپنے بچّوں کی پرورش میں مگن رہتی ہیں تو پھر ان کے لیے صرف ایک دن ہی کیوں؟؟ دوسری طرف ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو انتہائی ابتر صورت حال سامنے آتی ہے۔ مائوں کی کسمپرسی ہمارے معاشرے پر داغ کی صورت موجود ہے۔ بڑی تعداد میں بوڑھے والدین بے یارومددگار نظر آتے ہیں، جو اولادوں کے ہوتے ہوئے بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ افسوس ہم مغرب کی اندھی تقلید میں اس حد تک پستی کا شکار ہوچکے ہیں۔اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آئیں گے کہ موجودہ دور میں ہم اخلاقیات کے دامن کو چھوڑ چکے اور اسلام کے احکامات پر بھی صحیح معنوں میں عمل پیرا نہیں۔ ہمارا دین تو والدین سے حُسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ اُن کے سامنے اُف تک کرنے کی ممانعت ہے۔ کیا آج کی اولادیں ایسا کرتی ہیں؟ والدین سے بدزبانی اور دل دُکھانے والے سلوک تو معمول بن چکے ہیں۔ اولاد اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ وہ ماں باپ کے پاس بیٹھنے، باتیں کرنے کا وقت تک نہیں نکال پاتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی اولڈ ہائوس بن رہے ہیں، ایسے میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ والدین کو اولادیں گھروں سے نکال رہی یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہورہی ہیں اور اپنی اس بے حسی پر اُنہیں ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔ کیا ایسی عظیم ہستیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا اولادوں کو زیب دیتا ہے۔ مائوں کے عالمی دن کے موقع پر تقاریب میں لمبی چوڑی تقریروں سے کوئی فوائد حاصل نہیں کیے جاسکتے، اس کے واسطے تسلسل کے ساتھ سماج میں بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس عظیم رشتے کے تقدس کی پامالی کو روکا جاسکے۔ اولادیں ماں باپ کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، اُن کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کریں، اُن کی ہر ممکن طریقے سے دل جوئی کریں۔ والدین کے ساتھ وقت گزاریں، اُن کو درپیش مسائل کو سنیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ غرض اُن کا بڑھاپے میں اس طرح خیال رکھیں جیسے محبت ، شفقت اور لگن سے اُنہوں نے بچپن میں اُنہیں پالا تھا تو ہی اس حوالے سے صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔ یاد رہے کہ آج کی اولادوں کو کل خود بھی ماں باپ بننا ہے اور دُنیا میں مکافاتِ عمل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آج آپ جو بوئیں گے، کل وہیں آپ کو کاٹنا پڑے گا، لہٰذا اچھی فصل بوئیں تاکہ کل کو اچھا پھل مل سکے۔