Editorial

سی پیک کا ملکی خوشحالی میں کردار

پاکستان اور چین کی دوستی کو سمندر سے بھی گہری اور ہمالیہ سے بھی بلند گردانا جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت سے خاصی قریب تر ہے۔ یہ کچھ سال کا قصّہ نہیں، پاک چین دوستانہ تعلقات کا سلسلہ کئی عشروں پر محیط ہیں اور یہ دوستی وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم اور مضبوط ہورہی ہے۔ پاکستان کو جب بھی مشکل وقت نے آن گھیرا، ضرورت پڑی تو چین ہر ہر موقع پر موجود رہا۔ پاکستان نے بھی چین کا ہر موقع پر بھرپور ساتھ نبھایا۔ پاک چین کی دوستی کو دُنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پچھلے دو ڈھائی عشروں میں چین نے حیرت انگیز ترقی سے پوری دُنیا کو انگشت بدنداں کر ڈالا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اس نے سب کو پیچھے چھوڑ ڈالا ہے۔ عصر حاضر کی سب سے زیادہ تیزی سے اُبھرتی معیشت چین ہے۔ یہ سب وہاں کی حکومتوں اور عوام کی لگن اور شبانہ و روز محنت کا ثمر ہے، جو آج چین کو دُنیا بھر کے ممالک میں ممتاز مقام پر پہنچانے کا باعث ہے۔ دیرینہ دوست ہونے کے ناتے چین پاکستان کو بھی ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے بہرہ مند کرنا چاہتا ہے اور اس کے کئی عظیم سرمایہ کاری کررہا ہے۔ سی پیک منصوبہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چین وطن عزیز کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے۔ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے اور یہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کو انتہائی سُرعت سے مہمیز دینے کی وجہ ثابت ہوگا۔ سی پیک منصوبہ دُنیا کی بعض قوتوں کو بُری طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزما چکے اور ہر بار ہی اُنہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ان شاء اللہ سی پیک منصوبہ جلد مکمل ہوگا اور اس سے پاک چین پوری طرح مستفیض ہوتے دِکھائی دیں گے۔ گزشتہ روز پاکستان اور چین کے درمیان چار اہم مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سی پیک نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم سے چیئرمین چائنہ ڈیولپمنٹ کوآپریشن ایجنسی لوو ژائو ہوئی کی سربراہی میں چین کے اعلیٰ سطح کے وفد نے ملاقات کی۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے جس نے پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مدد کی، جس پر مجھ سمیت پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔ سڈکا کے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار کی تعریف کرتے ہوئے وزیراعظم نے سڈکا کے پاکستان میں 2022کے سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے اقدامات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک نے پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے لوگوں کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور گرین ڈیولپمنٹ کے شعبوں میں ترقی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کیلئے اشتراک کا ایک اہم موقع ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ ژائی ڈونگ بھی ملاقات میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزراء اسحاق ڈار، احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، سید محسن رضا نقوی، احسن اقبال، معاون خصوصی طارق فاطمی اور اعلیٰ پاکستانی و چینی حکام نے بھی ملاقات میں شرکت کی۔ وزیراعظم دونوں ممالک کے مابین چار مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب میں بھی شریک ہوئے۔ ان مفاہمتی یادداشتوں میں سیلاب کے بعد بحالی، اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی، جنکائو ٹیکنالوجی، منصوبہ سازی برائے چین پاکستان ترقیاتی تعاون (2024۔28) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں ابتدائی طبی امداد سینٹر کیلئے لیٹر آف ایکسچینج اور عالمی ترقیاتی اقدام کے تحت افرادی قوت کی ترقی سے متعلق پروٹوکول پر بھی دستخط کئے گئے۔ یہ معاہدے پاکستان اور چین کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کے مزید فروغ کی عکاسی کرتے ہیں۔ بلاشبہ سی پیک کا ملک و قوم کی خوش حالی میں اہم کردار ہے۔ سی پیک منصوبے سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ اُنہوں نے چین کے خلوص اور دوستی کا کُھل کر اعتراف کیا ہے۔ چین سی پیک سمیت دیگر شعبوں میں عظیم سرمایہ کاری کررہا ہے۔ پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک دوست ہونے کے ناتے بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ اس کے ہُنرمند پاکستان میں مختلف شعبوں میں خطرات کے باوجود اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ چین ایسے دوست نصیب والوں کو ملتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان بھی اس کی ازحد قدر کرتا ہے۔ پاکستان میں دوسرے ملکوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے بڑے معاہدے کیے گئے ہیں۔ چین اس ضمن میں بھی پیچھے نہیں اور سب سے آگے دِکھائی دیا۔ چین کے ساتھ چار مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کو اہم سنگِ میل گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان کی معاشی ترقی و خوش حالی کے لیے درست سمت کا تعین کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند بڑے فیصلے کیے گئے ہیں، جن کے ثمرات ان شاء اللہ جلد ظاہر ہوں گے۔ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ وطن عزیز وسائل سے مالا مال ہے۔ قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتیں اسے میسر ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام کو لاحق تمام مسائل کا خاتمہ ہوگا۔ مشکلات کا عرصہ تھوڑا سا ہے، ان شاء اللہ یہ ہمیشہ نہیں رہیں گی اور ملک و قوم ترقی و خوش حالی کے دور میں داخل ہوں گے۔
غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی
واپسی، سلسلہ جاری
پاکستان کئی عشروں سے لاکھوں غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ سوویت یونین 1979میں افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا، 45سال سے لاکھوں غیر قانونی مقیم افغانی پاکستان میں رہے اور ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھ چکی ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام نے ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ انہیں تعلیم، صحت، روزگار، کاروبار غرض ہر شعبے میں وسیع مواقع فراہم کیے گئے۔ بڑی تعداد میں افغان باشندے یہاں اپنی اربوں کی جائیداد بنا چکے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کرتے کرتے پاکستان کی خود کی معاشی حالت انتہائی حد تک خراب ہوچکی ہے۔ ملکی معیشت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ یہ لاکھوں باشندے پاکستان کے وسائل پر بدترین بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ ان کے ملک سے امریکی افواج کے انخلا کو کافی وقت گزر چکا۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوچکی۔ ایسے میں انہیں ازخود اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے تھا، لیکن ان کی جانب سے ایسی کوئی کوشش دِکھائی نہ دی۔ گزشتہ برس نگراں حکومت نے ماہ اکتوبر میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انہیں یکم نومبر تک کی ڈیڈلائن دی گئی۔ بہت سے گھرانے رضاکارانہ طور پر ازخود اپنے وطن کو لوٹ گئے۔ اس کے بعد ایسے افراد کو تلاش کرکے حکومتی قائم کردہ مراکز منتقل کیا جاتا رہا اور وہاں سے ان کی باعزت واپسی یقینی بنائی جاتی رہی۔ تب سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ لاکھوں غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے اپنے وطنوں کو لوٹ چکے ہیں۔ یوں ملکی وسائل اور معیشت پر بوجھ میں واضح کمی محسوس کی گئی ہے۔ اس حوالے سے تازہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک پونے دس لاکھ سے زائد غیر قانونی مقیم افغان باشندے اپنے وطن واپس جاچکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ایسے باشندوں کی اپنے ملک واپسی یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ اب بھی ملک بھر سے غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13اپریل سے 22اپریل تک 7041افغان شہری پاکستان سے چلے گئے، جن میں 2967 مرد،1834خواتین اور 2240بچے شامل ہیں۔ 22اپریل تک پاکستان چھوڑنے والے غیر قانونی افغان باشندوں کی کُل تعداد 9لاکھ، 81ہزار 542تک پہنچ چکی ہے۔ افغانستان روانگی کے لیے 213گاڑیوں میں 267خاندانوں کی اپنے وطن واپسی عمل میں لائی گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی مقیم افغانیوں کی وطن واپسی یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ تمام غیر قانونی مقیم پناہ گزینوں کی واپسی تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اس سے ناصرف ملکی معیشت اور وسائل پر بوجھ میں کمی آئے گی بلکہ ملک میں جرائم کی شرح بھی گھٹے گی اور صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button