Editorial

جمہوری ترقی اور معاشی استحکام کیلئے وزیراعظم کا عزم

سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی حیثیت سے وطن عزیز میں بھی امن و امان کی صورت حال انتہائی حد تک بگڑی۔ ملک 15سال سے زائد عرصے تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ دہشت گردی کی اس لہر میں 80ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، جن میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران و اہلکار بھی شامل تھے۔ اس کا سب سے بُرا اثر پاکستان کی معیشت پر پڑا، سرمایہ کاروں نے بدامنی کے باعث اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرونِ ممالک کی راہ لی۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی۔ 2014 میں شروع کردہ آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے نتیجے میں جب ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا تو عوام نے سُکھ کا سانس لیا اور چند سال کے دوران معیشت کی صورت حال بہتر ہوتی دِکھائی دی۔ پاکستان معاشی لحاظ سے تیزی سے ترقی کرتا نظر آیا۔ عوام نے سُکون کا سانس لیا۔ اُن کے حالاتِ زندگی بہتر ہونے لگے۔ ابھی حالات سنورنا شروع ہی ہوئے تھے کہ 2018کے وسط کے بعد سے ملکی معیشت کو بے پناہ گزند پہنچانے کی مذموم کوششیں دِکھائی دیں۔ ترقی کے سفر کو بریک لگانے کے ہتھکنڈے آزمائے جانے لگے۔ ایشیا کی بہترین کرنسی کہلانے والے پاکستانی روپے کو جان بوجھ کر پستیوں میں دھکیلا گیا، ہولناک حد تک بے توقیری کے باعث ڈالر ہر بار اُسے چاروں شانے چت کرتا نظر آیا۔ قوم کو ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی کے سیلاب کی نذر کردیا گیا۔ ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھ گئے۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس اور ایندھن) کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچیں۔ سونے کے دام بھی تاریخی بلندیوں کو چھونے لگے۔ 2018سے لے کر 2022تک کے چار سال ملک و قوم کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہ تھے، اس دوران پاکستان کو ترقی معکوس کا شکار کرنے کے لیے تمام حربے اختیار کیے گئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار انتہائی سست کردی گئی یا کام روک دیا گیا۔ دوست ممالک کو ناراض کرکے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کی سازش رچائی گئی۔ 2022کے وسط میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے معیشت کی بہتری کے لیے چند مشکل فیصلے کیے، جو دُوررس اثرات کے حامل تھے۔ اس حکومت میں بھی وزیراعظم شہباز شریف ہی تھے۔ اس کے بعد نگراں حکومت آئی تو اُس نے بھی ملک و قوم کے مفاد میں چند اہم اقدامات یقینی بنائے، جن سے صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ رواں سال فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں پھر سے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہونا پڑا۔ وہ ملک اور قوم کو لاحق مشکلات کے تدارک کے حوالے سے خاصے سنجیدہ دِکھائی دیتے ہیں اور معیشت کی بحالی اُن کی اوّلین ترجیح ہے۔ اس ضمن میں وہ پوری تندہی کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ معیشت کے لیے درست راہ کا انتخاب کرلیا گیا ہے اور متواتر اس حوالے سے اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ ڈالر کے ریٹ گرے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کچھ کمی آئی ہے۔ معیشت کے پہیے نے بھی چلنا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف جمہوری ترقی اور معاشی استحکام کے حوالے سے بھی پُرعزم ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ ہم مل جُل کر عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے، جس کے لیے وفاق اور صوبوں کو قریبی تعلق بنانا پڑے گا، میرا وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ بھائیوں والا تعلق بن گیا ہے، سندھ، پنجاب کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، دوسرے صوبوں کی ترقی بھی ملک و عوام کی ترقی ہے، 8فروری کے الیکشن کی نتیجے میں وفاق میں منقسم مینڈیٹ ملا، ہم سب کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ عوام کے مسائل حل کر سکیں، آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید ممالک کے وفود پاکستان آئیں گے، صوبے اور وفاق مل کر کام کریں گے تو سرمایہ کاری آئے گی، جمہوری ترقی کی گاڑی آگے بڑھے اس کے لیے ناپسندیدہ فیصلے بھی کرنے پڑیں گے۔ وزیر اعظم گزشتہ روز ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے، جہاں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم نے مزار قائد پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی، فاتحہ خوانی کی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے دعا کی۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا وزیراعظم کے ساتھ وزیراعلیٰ ہائوس میں ون ٹو ون اجلاس ہوا، جس میں مراد علی شاہ نے وزیر اعظم سے سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان ترقیاتی کاموں اور دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں کہا کہ ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے، اس کیلئے وفاق اور صوبوں کو قریبی تعلق بنانا پڑے گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایرانی صدر تشریف لائے، آنیوالے ہفتوں اور مہینوں میں ایسے اور بھی وفد آئیں گے، سرمایہ کاری کیلئے اور بھی وفد پاکستان کا رخ کریں گے، ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو خوشحالی و ترقی کی گاڑی آگے بڑھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی و خوشحالی کیلئے مل کر کام کریں گے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ مزید برآں وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی میں کاروباری برداری سے بھی خطاب میں کہا کہ یہ عظیم ملک بہت قربانیوں سے بنا ہے اور اب تہیہ کریں کہ پاکستان کو بنانا ہے تو آپ کی بصیرت اور اجتماعی محنت سے یہ ضرور بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم معاشی ترقی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لائیں تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو، وزیراعظم نے کہا کہ کاروباری برادری حکومت کا ساتھ دے، حکومت انہیں مایوس نہیں کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ جمہوری ترقی اور معاشی استحکام کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، تبھی اقوام ترقی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ پاکستان تا قیامت قائم رہے گا اور اس کی معیشت بھی سنبھل کر رہے گی۔ عوام ترقی و خوش حالی کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔ قدرت کی عظیم نعمتیں وطن عزیز کو میسر ہیں۔ قدرت کے ان انمول خزانوں کو اگر صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ جمہوری ترقی اور معاشی استحکام کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ عوام کو بھی ملکی ترقی و خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور حصّہ ڈالنا چاہیے۔
ملیریا کی روک تھام، اقدامات ناگزیر
پاکستان میں صحت کی صورت حال عرصہ دراز سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ جمعرات کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ملیریا سے بچائو کا عالمی دن منایا گیا۔ بلاشبہ ملیریا انتہائی خطرناک مرض ہے جو تیزی سے پوری دُنیا میں پھیل رہا اور پاکستان میں بھی اس سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، یہاں ملیریا کے ہر سال قریباً 7لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہوتے ہیں، جس کے خاتمے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ ملیریا قدرتی طور پر مچھر کی ایک قسم اینوفیلیز کی مادّہ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ بچّوں کے ملیریا سے متاثر ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ ملیریا کی علامات عموماً مچھر کے کاٹنے کے 6ایام بعد ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات اس کی علامات ظاہر ہونے میں ایک سال بھی لگ جاتا ہے۔ بخار، سردی، سردرد، متلی، الٹیاں، پیچش، شدید کمزوری، پٹھوں، پیٹ، کمر اور جوڑوں میں درد، کھانسی، گھبراہٹ وغیرہ ملیریا کی علامات ہیں۔ اس مرض کے شدید حملے میں اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس مرض سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ فوری اس کا علاج کروایا جائے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جائے۔ دوسری جانب وطن عزیز میں صحت کی مجموعی صورت حال پر نظر دوڑائی جائے تو انتہائی افسوس ناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حکومتی سطح پر صحت کے مسائل کو ترجیحات میں شامل نہ رکھنا ہے، تبھی تو یہاں ملیریا سمیت کئی خطرناک امراض ( جن میں ہیپاٹائٹس، کینسر، پولیو، ایڈز، ڈینگی شامل ہیں) انتہائی سُرعت سے پھیل رہے ہیں کہ جن کی روک تھام کے لیے انتظامیہ کی کوششیں سعی لاحاصل ہی ہوتی ہیں۔ کون سا ایسا مرض ہے جس کا وطن عزیز سے خاتمہ ہوگیا ہو۔ صحت کے نام پر بجٹ کا محض کچھ حصّہ مختص کرکے فرائض ادا نہیں ہوجاتے۔ عوام کو علاج کی سہولتیں ہی میسر نہیں، اُن کی اکثریت صحت کے کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار رہتی ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں صفائی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے سبب گندگی اور گندے پانی کے جوہڑ رہتے ہیں، جن سے بھی مچھروں کی خوب افزائش ہوتی ہے، جو ڈینگی، ملیریا، چکن گنیا اور دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ ملیریا سے بچائو کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ فوری ملک بھر میں صفائی کے نظام کو موثر کیا جائے، اس سے ازخود کئی امراض کی روک تھام ہوسکے گی۔ ملک کے گوشے گوشے میں مچھر کُش اسپرے کروایا جائے۔ حکومت عوام کو صحت کی مناسب سہولتوں کی فراہمی کے لیے راست اقدامات کرے، سرکاری اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں یقینی بنائی جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button