پاکستان

’ہم نے 76 سال جھوٹ بولا اور سچ کو چھپایا، سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہوتی ہے،‘ جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے 76سال جھوٹ بولا ، سچ کو چھپایا ہے۔ عوام کو سچ جاننے کا پورا حق ہے۔ تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا۔ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر پاکستان بار کونسل جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔ سال 2018 اور 2019 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت ایسا کیا طریقہ اختیار کرے کہ عدلیہ میں مداخلت کا رجحان ختم ہو۔ سال 2018 میں اٹارنی جنرل نے مداخلت کا حوالہ دیا تھا،اُس وقت ہائی کورٹ ججز کے لیے مشکل یہ تھی کہ مداخلت سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے ہو رہی تھی۔

وکیل پاکستان بار نے عدالت کے روبرو کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button