Editorial

اسرائیلی ظلم اپنی انتہا پر، عید پر بھی سیکڑوں بے گناہ فلسطینی شہید

فلسطین اس وقت دُنیا کا مظلوم ترین خطہ ہے اور فلسطینی مظلوم ترین قوم جبکہ اسرائیل دُنیا کا ظالم ترین ملک اور سفّاک ترین قوم ہے، جو انسانیت سے بالکل پرے ہے، سفّاکیت اس کی مٹی میں گُندھی ہوئی ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے فلسطین پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں، لیکن پچھلے سات ماہ کے دوران ان میں ہولناک شدّت آچکی ہے اور تب سے اب تک لاتعداد اسرائیلی فضائی، زمینی اور بحری حملوں کے نتیجے میں 33ہزار 5سو سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ عیدالفطر پر بھی اسرائیل نے غزہ میں فضائی حملہ کرکے مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے 3بیٹوں اور 3پوتوں سمیت 185 افراد کو شہید کر دیا۔ اقوام متحدہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد منظور ہوئے کئی روز گزر گئے، لیکن اسرائیل اس قرارداد کو کسی خاطر میں نہیں لایا۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو فوری حملے روکنے کا حکم دیا، اس حکم کو بھی ظالم اسرائیل نے ردّی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ پوری دُنیا کے ممالک اسرائیل سے حملے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن ظالم کی جانب سے حملوں میں اور شدّت لائی جارہی ہے۔ تمام جنگی اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے۔ غزہ کا پورا انفرا سٹرکچر برباد کر دیا گیا ہے۔ عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں۔ ان ملبوں تلے نہ جانے کتنے زندہ ہیں اور کتنے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ کہیں والدین بچوں کی شہادتوں پر نوحہ کناں ہیں تو کہیں اولادیں اپنے ماں، باپ کی موت پر غم و اندوہ کی کیفیت میں ہیں۔ پوری دُنیا کے ممالک چیخ چیخ کر اسرائیل سے جنگ روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتدا میں اسرائیل نے جب حملوں کا آغاز کیا تو دُنیا کے بعض مہذب ممالک اُسے مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم ٹھہرا رہے تھے۔ ساڑھے 33ہزار زندگیاں نگلنے کے باوجود اسرائیل کو آج بھی یہ مہذب ممالک ظالم کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان شہدا میں بہت بڑی تعداد میں ننھے بچے بھی شامل ہیں۔ بھوک سے دو درجن سے زائد اطفال جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بدترین صورت حال ہے۔ فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ بدترین غذائی قلت ہے۔ ہسپتال محفوظ ہیں نہ عبادت گاہیں۔ سکول محفوظ ہیں نہ امدادی اداروں کے دفاتر۔ ہر سو اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ میڈیا رپورٹس اسرائیل کے غزہ پر کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں اب تک طبی عملے کے 489افراد شہید ہوچکے جبکہ 600سے زائد زخمی ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے اب تک طبی عملے کے 310افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 155اسپتالوں اور طبی اداروں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک طبی عملے کے 489افراد شہید جبکہ 600سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں، اسرائیلی حملوں نے 32بڑے اسپتالوں اور53ہیلتھ سینٹرز کو غیر فعال کیا، 126ایمبولینسز بھی تباہ ہو گئیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ سے اب تک 4373مریضوں کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کیا گیا اور اب بھی 10ہزار سے زائد زخمی بیرون ملک منتقل ہونے کے منتظر ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا بتانا ہے کہ غزہ میں اب تک 33545افراد شہید اور 76094افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ ملبے میں دبے ہوئے افراد کی تعداد 2367ہے۔ مزید برآں غزہ میں غذائی قلت سے اب تک بچوں سمیت 28افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے ظلم کی انتہا ہوچکی ہے۔ اب اس کا ناپاک وجود جلد ہی دُنیا سے ختم ہوجائے گا۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ عذاب الٰہی نازل ہوگا اور ظالم کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا۔ مظلوموں کی پکار بارگاہ الٰہی میں ضرور سنی جائے گی۔ اسرائیل کے ظلم کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ نزدیک ہے۔ ادھر آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وانگ نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں تقریر کے دوران کہا کہ ان کی حکومت فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر غور کرے گی، ان کا اعلان عالمی سطح پر مختلف ممالک کی جانب سے تنازع کا حل دو ریاستوں کے قیام قرار دینے کے بعد آیا جو ان کی سابقہ پالیسی کے برعکس ہے۔ پینی وانگ نے برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان کی حمایت کی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ سمیت فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے سے تنازع کا دو ریاستی حل ممکن ہو گا۔ دریں اثنا ملک کے مختلف شہروں اور دیہاتوں کی مساجد میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے صاحبزادوں، پوتوں اور دیگر تمام شہدائے غزہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان مواقعوں پر اہل فلسطین کی کامیابی اور مسجد اقصیٰ کی صیہونی قبضہ سے آزادی کے لیے دعائیں کی گئیں۔
حادثات میں 75افراد جاں بحق
عیدالفطر خوشیوں کا تہوار ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ چند روز قبل ہی ہم سے وداع ہوا ہے۔ اس کے بعد پورے ملک میں عیدالفطر جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی۔ حادثات پوری دُنیا میں ہوتے ہیں، لیکن اُن کے نتیجے میں اتنا زیادہ انسانی زندگیوں کا ضیاع نہیں ہوتا، جتنا وطن عزیز میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے لوگ دہشتگردی کے باعث اپنی زندگیوں سے محروم نہیں ہوئے، جتنا زیادہ ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر سال ایسے حادثات پر افسوس کا اظہار کرکے اور زخمیوں اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان کرکے ذمے داران اپنے تئیں اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔ حادثات کی وجوہ کا سدباب کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ پھر اگلے کسی بڑے سانحے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ عید کے ایام کے دوران ملک کے طول و عرض میں ایسے ہولناک حادثات دیکھنے میں آئے، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔ پورے ملک میں غم و اندوہ کی فضا طاری ہوگئی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر درد مند دل اُداس تھا۔ درگاہ شاہ نورانی جانے والے زائرین کے ٹرک کو حب پر ہولناک حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں 18افراد جاں بحق ہوءے۔ پنجاب میں عید کے پہلے دو روز کے دوران 25افراد حادثات میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عید کے تین ایام میں پورے ملک میں موت کا کھیل جاری رہا، ون ویلنگ، مختلف حادثات میں 75سے زائد تیز رفتار موٹرسائیکل اور دو مختلف روڈ حادثوں میں ایک مرد اور ایک خاتون جاں بحق ہو گئی۔ عید کے دوسرے روز درگاہ شاہ نورانی کی زیارت کو جانے والے 18زائرین کی اجتماعی تدفین کردی گئی، نماز جنازہ میں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی شرکت کی۔ درگاہ شاہ نورانی جانے والے ٹرک کو حادثہ عید کے پہلے روز شام ویراب ندی کے قریب پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں 18افراد جاں بحق اور 52زخمی ہوئے۔ مرنے والے تمام افراد کا تعلق مکلی کے قاسم جوکھیو گوٹھ سے تھا، جن کی لاشیں کراچی سے منتقل کرنے کے بعد اجتماعی قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس سے قبل نماز جنازہ ہوئی، جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ایم پی ایز ریاض شاہ شیرازی، جام اویس سمیت عزیز و اقارب اور قرب و جوار کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مرنے والوں میں 14افراد کا تعلق ایک ہی گھرانے سے ہے، جاں بحق افراد کی عمریں 15سے 55سال کے درمیان ہیں۔ جب ایک گھر سے 14جنازے اٹھے تو محلے میں کہرام مچ گیا۔ اس موقع پر رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے اور ہر آنکھ اس الم ناک واقعے پر اشک بار تھی۔ نماز جنازہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس ایک لاکھ روپے مالی مدد فراہم کرے گی۔ دوسری جانب پنجاب میں عیدالفطر کے 2دن میں مختلف ٹریفک حادثات میں 25افراد جاں بحق ہوئے۔ ترجمان ریسکیو 1122کے مطابق فیصل آباد میں کار اور ویگن، ملتان میں ہائی ایس اور ویگن جبکہ چنیوٹ میں کار اور بائیک کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں ہزاروں بائیک ایکسیڈنٹ رپورٹ ہوئے۔ ڈی جی ریسکیو 1122ڈاکٹر رضوان نصیر نے حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور قریباً ڈھائی ہزار افراد کے زخمی ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہری سفر کے دوران ٹریفک قوانین پر عمل اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ ریسکیو 1122کے ترجمان کے مطابق عیدالفطر کے پہلے 2روز کے دوران صوبے بھر میں4ہزار 500حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 4100مرد اور 1203خواتین ایکسیڈنٹ کا شکار ہوئے۔ سب سے زیادہ 770حادثات صوبائی دارالحکومت لاہور میں رپورٹ ہوئے۔ حادثات کے نتیجے میں زخمی ہونے والے 2545شدید زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ 2733افراد کو موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔ علاوہ ازیں موٹر بائیک کے4422، رکشے کے219اور کار کے496ایکسیڈنٹ رپورٹ ہوئے۔ 770ایکسیڈنٹ لاہور میں، 288فیصل آباد، 256ملتان اور 245گوجرانوالہ میں رپورٹ ہوئے۔ ان حادثات کے باعث کئی گھرانوں میں صفِ ماتم بچھی۔ لوگ اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کی جاتی ہے اور نہ ان کو کسی خاطر میں لایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ ٹریفک قوانین سے آگہی ہی نہیں رکھتے۔ ٹریفک سگنل کی پاسداری وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی عدم پاسداری اور ان پر صحیح طور پر عمل درآمد نہ ہونا، ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ ہے۔ تہواروں اور قومی دنوں کے موقع پر ہر کوئی بے ہنگم سڑک پر موٹر سائیکل اور گاڑی دوڑا رہا ہوتا ہے۔ تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ بس جلد منزل پر پہنچنے کا سودا ذہن پر سوار ہوتا ہے، غفلت اور رف ڈرائیونگ کی جاتی ہے، یہی اوامر حادثات کی وجہ بنتے اور ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر زندگیوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہوتی ہیں، بظاہر اَن فٹ ہوتی ہیں مگر وہ فٹنس سرٹیفکیٹ کی حامل ہوتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈرز کی ممانعت ہے، لیکن ایل پی جی اور سی این جی پر گاڑیاں چلاکر ٹرانسپورٹ مافیا بھرپور کمائی میں مصروف ہے۔ ڈرائیور نشے میں دھت ہوکر پبلک ٹرانسپورٹ چلارہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی بعض اوقات کئی زندگیوں کے ضائع ہوجانے کی وجہ بن جاتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر ایسا کب تک چلے گا۔ حادثات کی وجوہ کا سدباب ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ حادثات کی وجہ تلاش کی جائیں اور ان کو دُور کیا جائے۔ دوسری جانب ٹریفک قوانین کی پاسداری ہر صورت یقینی بنائی جائے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے ٹریفک پولیس اپنی ذمے داری دِکھائے۔ کمسن ڈرائیوروں کو سڑکوں پر آنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button