ColumnImtiaz Aasi

سیاست دانوں کے کارہائے نمایاں

تحریر: امتیاز عاصی
وطن عزیز سے سیاست دانوں نے کیا کیا کھلواڑ نہیں کئے تاہم اس کے باوجود مملکت خداداد قائم و دائم ہے۔ وطن سے والہانہ محبت اور عوام سے ہمدردی کا دم بھرنے والوں نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے نہ تو ذمہ دار حلقوں اور نہ عوام کو اس کی بھنک پڑنے دی۔ دراصل یہی تو کمال ہے سیاست دانوں کا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچی رہے۔ ہمیں قومی اثاثوں کو آئوٹ سورس کرنا پڑ رہا ہے اس کے ذمہ دار سیاست دان ہی تو ہیں۔ اقتدار میں ہوتے ہیں تو مال و متاع کے لالچ میں اندھے ہوئے جاتے ہیں۔ ملک میں ایک مرتبہ بے لاگ احتساب ہوجاتا کم از کم قومی دولت لوٹنے والوں سے قوم کو چھٹکارا مل جاتا۔ بدقسمتی سے احتساب کو سیاسی جماعتوں نے انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا اور لوٹ مار کرنے والوں پر کسی نے ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جس ملک میں سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد مال و دولت کی ہوس میں اندھے ہو جائیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا کوئی نہ ہو ایسے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب نہیں پہنچے گئے تو اور کیا ہوگا۔ عمران خان منی لانڈرنگ کا روگ اپلاتا رہا وزارت خزانہ نے اسے بھی خبر نہیں ہونے دی۔ وزارت خزانہ میں بیٹھی بیوروکریسی نے قدم قدم پر جناب اسحاق ڈار کی کارستیانیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی یار لوگ پھر بھی سابق وزیر خزانہ کے ماہرانہ کارہائے نمایاں کو قوم کے سامنے لانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم داد دیتے ہیں ایک اردو معاصر کے سنیئر کالم نگار رئوف کلاسرا کی کاوشوں کو جو اسحاق ڈار کی ملک و قوم کے لئے خدمات کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے۔ قصہ کچھ یوں ہے 2014ء میں نواز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے۔ ڈاکٹر وقار ان کے ساتھ سیکرٹری خزانہ تھے۔ اسحاق ڈار نے یورو بانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ وقت عالمی مارکیٹ میں بانڈز فلوٹ کرنے کے لئے اچھا وقت نہیں تھا۔ جناب ڈار نے عالمی مارکیٹ میں 500ملین ڈالر کے یورو بانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا اور بانڈز کا سالانہ پرافٹ 8.25فیصد رکھا گیا تو عالمی مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی اتنا پرافٹ آج تک کسی ملک نے آفر نہیں کیا تھا۔ چنانچہ انہی دنوں بھارت کی ایک مشہور کمپنی اپلانٹس نے بھی 700ملین ڈالرز کے بانڈز فلوٹ کئے مگر پرافٹ انہوں نے 2.75فیصد رکھا جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پرافٹ سوا آٹھ فیصد دیا۔ جب یہ خبر پاکستان میں شائع ہوئی تو سینیٹر عثمان سیف اللہ نے قومی اسمبلی میں بڑی دھواں دار تقریر کر دی ان کا دعویٰ تھا اسحاق ڈار نے ملکی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لے لیا۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ میں سلیم مانڈی والا نے انکشاف کیا ان کے علم میں آیا ہے کچھ اہم لوگوں نے پاکستان سے 700ملین ڈالر باہر بھیج کر بانڈز خریدے ہیں۔ اب سوال تھا آخر کن لوگوں نے سات سو ملین ڈالر بیرون ملک بھیجے ہیں؟، کوئی بتانے کو تیار نہیں تھا۔ سیکرٹری خزانہ نے بھی چپ سادھ رکھی تھی۔ رئوف کلاسرا کے مطابق ایک روز وہ چودھری شجاعت کی رہائش گاہ پر بیٹھے تھے۔ چودھری شجاعت کو بھی اس معاملے کی خبر ملک چکی تھی، شجاعت نے انہیں بتایا وہ تین لوگ کون ہیں جن کی خاطر یورو بانڈز فلوٹ کئے گئے ہیں۔ دراصل ان تین خاندانوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ انہوں نے دو بڑے خاندانوں کے علاوہ لاہور کے ایک بینکر کا نام لیا کہ ان بانڈز کا سارا پرافٹ ان لوگوں کی جیب میں جا رہا ہے۔ رئوف کلاسرا کے بقول وہ چودھری شجاعت کی ساری باتیں حیرانی سے سنتے رہے، کوئی اپنے ملک کے ساتھ اس طرح بے رحمی بھی کر سکتا ہے ۔ رئوف کلاسرا لکھتے ہیں انہی دنوں ان کے دوست احتشام الحق نے پانچ سو ملین ڈالر پر کالم لکھا تو انہوں نے جناب اسحاق ڈار سے پوچھا آپ نے اتنا مہنگا قرضہ کیسی لے لیا تو اسحاق ڈار کا جواب تھا وہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ چیک کر رہے تھے۔ ساکھ چیک کرنے کے چکر میں دینا کا مہنگا ترین قرضہ لے لیا اور وہ بانڈز بھی اپنے ہی لوگوں نے خرید لئے۔ پاکستان اب ان بانڈز کی ادائیگی کر رہا ہے۔ عوام کو سمجھ تو آگئی ہو گی۔ عوام یہ ساری داستان پڑھ کر سینہ کوبی نہیں کریں تو کیا کریں گے۔ قارئین آپ اندازہ کر سکتے ہیں بیوروکریسی سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن پر کیسے پردہ پوشی کرتی ہے۔ اب سوال ہے اس طرح کے معاشی معاملات سے ایک عام شہری تو ناواقف ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے اداروں میں نہ جانے کیا کچھ ہوتا رہا ہے یا ہو رہا ہے۔ یہ ناچیز اس ساری کہانی کو پڑھ کر سوچوں میں گم ہو گیا آخر نواز شریف اسحاق ڈار کو کیوں بار بار وزیر خزانہ بنانے پر مصر ہوتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو ان کا جس نے وفاقی کابینہ بناتے وقت اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ سے دور رکھا ورنہ وہ وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے کی تیاریوں میں تھے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت اگرچہ مسلم لیگ ن کی ہے تاہم نواز شریف اور شہباز شریف پر کچھ نہ کچھ مایوسی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے انسان کے لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ویسے تو نہیں کہتے ملک غریب ہے یہاں کے عوام امیر ہیں۔ یورو بانڈ کی کہانی سے قارئین آپ اندازہ لگا سکتے ہیں سیاست دان دوزخ کی آگ بھرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ ملک اور عوام کے ساتھ ان کی وابستگی اقتدار کی حد تک ہوتی ہے ورنہ انہیں عوام کی کیا پروا ہے۔ سیاسی رہنمائوں کی ذہنیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے قومی خزانے سے آٹا خرید کر تھیلوں پر نواز شریف کی تصویر چھاپنے کی بھلا کیا تک بنتی تھی۔ اگر وہ ذاتی جیب سے لوگوں کو مفت آتا دیتے تو ان کی تصویر چھاپی جاتی تو بھی بات بنتی تھی۔ ہمارے ملک کو تباہی کی نہج پر پہنچانے والے سیاست دان ہیں۔ ملک و قوم کی اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی مبینہ کرپشن کرنے کے باوجود سیاست دانوں پر کوئی ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ عمران خان نے اپنے تہیں کوشش ضرور کی لیکن اس کے بھی ہاتھ بندھے ہوئے تھے جس کا اظہار اس نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ٹی وی چینل پر کیا تھا۔ کاش کوئی حکمران تو اس ملک کو مل جاتا جو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کے خلاف بے لاگ احتساب جاری رکھتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button