Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

ملک کے غریب عوام کو پچھلے 5، 6سال سے بدترین مصائب اور مشکلات نے گھیرا ہوا ہے۔ ہر شے اُن کی پہنچ سے دُور ہوچکی ہے۔ روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتیں بے پناہ بڑھ چکی ہیں۔ اسی طرح بنیادی ضروریات (بجلی، گیس اور ایندھن) کے نرخ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ پانچ چھ برسوں کے دوران معیشت کا پہیہ جام دِکھائی دیا ہے۔ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا کہ نگراں حکومت سے قبل قائم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ملک کو اس خطرے سے بچایا۔ اُس نے چند بڑے اقدامات کیے، جن کے ثمرات آنے والے وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔ نگراں دور میں بھی چند بڑے فیصلے ہوئے، جن کے ثمرات فوری طور پر ظاہر ہوئے اور آئندہ بھی معاشرے پر مرتب ہوں گے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے دوچار تھا کہ سات ماہ قبل ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈائون کے نتیجے میں وہ روز بروز مستحکم اور مضبوط ہورہا ہے۔ گو اس کے نتیجے میں مہنگائی کا زور تھوڑا بہت ٹوٹا، لیکن عوام اب بھی حقیقی اشک شوئی سے کوسوں پرے ہیں۔ اُن کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ مہنگائی کی مار اُن کو مسلسل پڑرہی ہے، اس میں کمی نہیں آرہی۔ اُن کی آمدن وہی ہے جب کہ اخراجات تین، چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ ہر شے کے داموں میں بھی تین، چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ 8فروری کو عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا کہ شاید اب ان کے دلدر دُور ہوجائیں، لیکن پچھلے دو ماہ سے اُن کے مصائب مسلسل بڑھتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ گرانی میں بھی اضافے کے سلسلے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت روز بروز سنگین شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کے بدترین نشتر غریبوں پر برستے دِکھائی دیے۔ صرف ماہ صیام پر ہی کیا موقوف پچھلے پانچ سال تو مہنگائی کے حوالے سے ڈرائونا خواب ثابت ہوئے ہیں۔ گرانی کے سیلاب میں غریبوں کا سب کچھ بہہ چکا ہے۔ غریب حقیقی اشک شوئی کے منتظر ہیں اور ان کا یہ انتظار طویل تر ہوتا چلا جارہا ہے بلکہ اب بھی اُن کے مسائل بڑھتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کی زندگیاں کسی طور سہل نہیں، وہ مشکلات سے عبارت ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، مسلسل پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ روز چوتھی بار غریبوں پر پٹرول بم برسایا گیا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کردیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مہنگائی کے ستائے عوام پر پھر پٹرول بم گرادیا گیا، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کردیا۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔اوگرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 53 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 293 روپے 94 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 14 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈیزل کی نئی قیمت 290 روپے 38 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔مٹی کے تیل کی قیمت میں 6 روپے 69 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 193 روپے 8 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 6 روپے 54 پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 174 روپے 34 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی 60،60 روپے فی لٹر پر برقرار ہے۔نئی قیمتوں کا اطلاق رات 12بجے سے ہوگیا۔ پٹرول اور ڈیزل کی نئی قیمتیں اگلے 15 دن کے لیے ہوں گی۔وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ 15 روز میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس فیصلے کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب بجلی کی قیمتوں میں بھی مزید اضافے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ عوام پہلے ہی خطے میں سب سے مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی آمدن کا بڑا حصّہ اسی کی ادائیگی کی نذر ہوجاتا ہے۔ بہرحال پٹرولیم مصنوعات پر بات کی جائے تو عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ ضرور بڑھے ہیں، لیکن پچھلے مہینوں سے مسلسل پاکستانی روپیہ بھی استحکام حاصل کررہا ہے، اس کے باوجود مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی مشق ستم کو جاری رکھنا مناسب امر معلوم نہیں ہوتا۔ عوام کو اس ضمن میں خاطرخواہ ریلیف فراہم کرنا چاہیے تھا، اس کے اُلٹ اقدامات کیے گئے۔ عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی کا باعث ثابت ہوتے ہیں، اُن کی مشکلات بڑھانے کی وجہ نہیں بنتے۔ موجودہ اتحادی حکومت کو عوامی مینڈیٹ کا پاس رکھتے ہوئے غریبوں کی زندگیوں کو سہل بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ مہنگائی کو دعوت دینے جیسے اقدامات سے گریز کرتے ہوئے گرانی کے زور میں کمی لانی چاہیے، مہنگائی کا زور توڑنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے اور اس پر سنجیدگی سے اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ غریبوں کی آمدن میں معقول حد تک اضافے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ بجلی کی قیمتوں کو مناسب سطح پر لانا چاہیے۔ تمام تر بوجھ غریبوں کے کاندھوں پر منتقل کرنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ الحمدللہ پاکستان قدرت کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے۔ وسائل بہت ہیں، بس ان کو درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ قرضوں پر انحصار کی روش ترک کی جائے اور وسائل سے مسائل کے حل کی جانب توجہ دی جائے۔ زراعت کی بہتری پر توجہ دی جائے، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ بیرون ممالک سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے۔ یہ خوش کُن امر ہے، اس کے ملک پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
زمین کو لاحق خطرات سے متعلق انتباہ
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت انتہائی وسیع پیمانے پر عرصہ دراز سے خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ دُنیا کے اکثر ممالک اس سے نمٹنے کے لیے برسرپیکار
ہیں جب کہ وطن عزیز میں اس ضمن میں محض بیانات تک محدود رہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت دُنیا کے بیشتر ممالک بدترین موسمیاتی تغیرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ طوفانوں اور سیلابوں کی بھرمار ہے۔ زلزلوں کے سلسلے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ حالیہ بارشیں یو اے ای کے لیے عذاب بن گئی ہیں۔ پورا دبئی ڈوب گیا ہے۔ پاکستان بھی اس باعث متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ یہاں انتہائی بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ وطن عزیز کے بیشتر حصوں میں پچھلے کچھ ایام سے بدترین بارشوں کے سلسلے ہیں۔ درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پچھلے برسوں میں بدترین سیلاب قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔ 2022ء کے سیلاب میں 17سو سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ بے شمار مکانات سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھروں کو جزوی نقصانات پہنچے۔ بے شمار مویشی ہلاک ہوئے۔ تیار فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ دُنیا کے اکثر ممالک کو لگ بھگ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے اور جو اس کے ذمے دار ہیں، وہ ممالک انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے جب کہ دُنیا میں ماحول دشمن اقدامات میں سب سے آگے ہیں۔ اگر اب بھی اس صورت حال کے تدارک کے لیے اقدامات نہ کیے جاسکے تو اس زمین پر زیست انتہائی کٹھن اور دُشوار گزار ہوجائے گی۔ اس امر کا اعادہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی نے بھی کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی نے متنبہ کیا ہے کہ دُنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات سے بچانے کے لیے انسانوں کے پاس صرف دو سال باقی ہیں۔ میڈیا نیوز کے مطابق ایجنسی نے ترقی یافتہ ممالک سے گرمی میں اضافہ کرنے والے اخراج کو روکنے کے لیے جلد موثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایجنسی کے ایگزیکٹو سیکریٹری سائمن اسٹیل کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہیں کہ یہ انتباہ ایک ڈرامائی بیان لگتا ہے، لیکن جلد اقدامات بہت ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ سوال کہ دُنیا کو بچانے کے لیے دو سال اصل میں کس کے پاس ہیں؟ تو اس کا جواب اس کرہ ارض کا ہر فرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب زیادہ سے زیادہ لوگ معاشرتی اور سیاسی سطح دونوں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کارروائی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں اور اپنے گھریلو اخراجات تک میں موسمیاتی بحران کے اثرات کو محسوس کررہے ہیں۔ دُنیا کی بقا کے لیے تمام ممالک میں بسنے والے انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماحول دشمنی پر مبنی اقدامات ترک کیے جائیں اور انسانیت کی بہتری کا سوچا جائے۔ ماحول دوست اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ پاکستان کے شہری بھی ماحولیاتی آلودگی سے نجات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح گلی، محلوں، عوامی اور تفریحی مقامات پر بھی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں اور وہاں کچرا پھیلانے سے اجتناب کریں۔ ملک بھر میں شجرکاری مہمات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ہر شہری اس میں ہر شہری اپنا حصہ ڈالے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button