Editorial

سانحہ نوشکی: دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ناگزیر

پاکستان وہ ملک ہے جو 15سال تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ 80ہزار بے گناہ شہری دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوان بھی شامل ہیں۔ روزانہ ہی ملک کے کسی نہ کسی حصّے میں دہشت گردی کا بڑا حملہ ہوتا تھا، جس میں درجنوں شہری جاں بحق اور زخمی ہوتے تھے، شدید خوف و ہراس کی فضا تھی، لوگ اپنے سایوں سے بھی خوف کھاتے تھے۔ صبح کو گھر سے نکلنے والے کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکوں گا یا نہیں۔ عوام شدید عدم تحفظ کا شکار تھے۔ سانحۂ آرمی پبلک اسکول رونما ہوا، 140طلباء اور اساتذہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، جس نے پوری قوم کو دہلاکر رکھ دیا۔ اس کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا گیا اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کُن آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا، دہشت گردوں کو پورے ملک سے چُن چُن کر مارا گیا، ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا، متعدد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اُن کو بُری طرح کچل دیا گیا۔ امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ حالات نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ پورے ملک میں مثالی امن قائم ہوا، جس پر عوام النّاس نے سکون کا سانس لیا۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان نے تن تنہا جیتی تھی، جس پر پوری دُنیا انگشت بدنداں تھی۔ کچھ سال امن و امان کی فضا برقرار رہی، اب پچھلے ڈیڑھ دو سال کے دوران دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھارہا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دہشت گردی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور بھی دیگر دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ دہشت گردی کے سر اُٹھانے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز پھر سے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے برسرپیکار ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشنز جاری ہیں اور بہت سے آپریشنز کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں، جن میں ناصرف دہشت گردوں کو مارا گیا، گرفتار کیا گیا، ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا اور ان کے ناپاک وجود سے علاقوں کو پاک کرایا گیا۔ متعدد علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کرایا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں کر گزرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے، جس پر پوری قوم غم اور اندوہ کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو دہشت گردوں کی جانب سے قتل کرنے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں، یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ گزشتہ روز بھی بلوچستان میں ایسا ہی مذموم واقعہ پیش آیا ہے، جس میں 9 مسافروں کو بس سے اُتار کر قتل کردیا گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے ضلع نوشکی میں دہشت گردوں نے 9 مسافروں کو بس سے اتار کر قتل کردیا۔ واقعہ گزشتہ رات کو پیش آیا۔ ڈپٹی کمشنر نوشکی کے مطابق نوشکی کے مقام پر قومی شاہراہ پر ایک بس سے مسلح افراد نے 9مسافروں کو اغوا کیا اور انہیں قریبی پہاڑوں کی جانب لے گئے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسافر بس کوئٹہ سے تفتان جارہی تھی۔ بعدازاں پولیس نے بتایا کہ نوشکی سے اغوا کیے جانے والی 9مسافروں کی لاشیں پہاڑی کے قریب پل کے نیچے سے ملیں، مرنے والوں کا تعلق منڈی بہائو الدین، گوجرانوالا اور وزیرآباد سے ہے۔ پولیس کے مطابق کسی اغوا کار کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ علاوہ ازیں نوشکی میں قومی شاہراہ پر گاڑی پر فائرنگ کے ایک اور واقعے میں 2 افرادجاں بحق اور3زخمی ہوئے۔ ڈی سی نوشکی نے بتایا کہ ایک جاں بحق شخص رکن صوبائی اسمبلی کا رشتے دارہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان سرفرازبگٹی نے نوشکی میں فائرنگ سے 11افرادکے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، معصوم افراد پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے، دہشت گردی کے واقعات کا مقصد بلوچستان کے امن کوسبوتاژ کرنا ہے۔دوسری جانب سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر کے انتہائی مطلوب دہشت گرد کو ہلاک اور اس کے دو ساتھیوں کو زخمی کردیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق بونیر میں آپریشن دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر کیا گیا، آپریشن کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ہائی ویلیو ٹارگٹ دہشت گردوں کا سرغنہ سلیم عرف ربانی ہلاک اور 2 دہشت گرد زخمی ہوئے جبکہ دہشت گردوں سے مقابلے میں 2بہادر جوان بھی شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ سے لانس نائیک حسیب جاوید اور حوالدار مدثر محمود شہید ہوئے۔ آئی ایس پی آر کا بتانا ہے کہ دہشت گرد سلیم عرف ربانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا، حکومت نے اس کے سر کی قیمت 50لاکھ روپے مقررکر رکھی تھی۔ شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمی کیلئے پرعزم ہیں، بہادر جوانوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔نوشکی میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہے۔ کسی سے حقِ زیست چھین لینا کسی بھی معاشرے میں مناسب نہیں گردانا جاتا۔ اتنی بے دردی کے ساتھ بلوچستان میں 11لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث ملزمان کو تلاش کیا جائے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ دوسری جانب بونیر میں انتہائی مطلوب دہشت گرد کو جہنم واصل کرنا سیکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابی ہے۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں اور جلد یہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں گی۔ اس کارروائی میں 2جوانوں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ بہادر سپوتوں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی اور ان کے لواحقین کی قربانیوں کو قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ وہ انہیں ہمیشہ قدر و منزلت اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ مختلف آپریشنز متواتر جاری ہیں اور کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردوں کا سر کچل چکا ہے اور اس بار بھی ان شاء اللہ اس میں کامیاب ہوگا۔ ملک سے دہشت گردوں کا جلد صفایا ہوگا اور امن و امان کی فضا پھر سے برقرار ہوگی۔
ملاوٹ مافیا کیخلاف کارروائیاں کی جائیں
وطن عزیز کے طول و عرض کے بازاروں اور مارکیٹوں کا دورہ کرلیں، خالص، معیاری اور صحت بخش شے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ بہت تلاش بسیار کے بعد بھی ناکامی ہی مقدر بنتی ہے۔ کہنے کو تو ایمان داری کا راگ ہمارے ہاں ہر سُو الاپا جاتا ہے، لیکن ایمان داری کی رمق معاشرے میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں تمام اشیاء خورونوش ملاوٹ مافیا کے نرغے میں ہیں، جنہوں نے لگ بھگ تمام ہی اشیاء کو غیر معیاری اور مضر صحت بناڈالا ہے۔ یہاں بچوں کی چیزیں ٹافی، بسکٹ، پاپڑ، چپس، چاکلیٹس، جیلی وغیرہ تک غیر معیاری ہونے کے ساتھ ملاوٹ سے محفوظ نہیں۔ معصوم بچوں کی صحتوں کے ساتھ ملاوٹ مافیا عرصہ دراز سے کھیلنے میں مصروف ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ بچے طرح طرح کے امراض کی لپیٹ میں آتے رہت ہیں۔ اُن کی صحت تباہی کی طرف جارہی ہے۔ اُن کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ آٹا، تیل، گھی، پتی، مسالہ جات وغیرہ میں ملاوٹ عام ہے۔ افسوس ہم ایسے سماج میں جی رہے ہیں، جہاں پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ دولت کمانا مقصد ہے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی غلط اور غیر قانونی راستہ اختیار کرنا پڑے۔ مختلف لوگ شہد بڑے اعلانات کے ساتھ بیچتے ہیں، لیکن خالص شہد بہت جستجو کے بعد میسر آپاتا ہے۔ آخر کب تک لوگ ملاوٹ شدہ، غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کے استعمال سے اپنی صحت کو برباد کرتے رہیں گے۔ کب انتظامیہ ملاوٹ مافیا کے خلاف کریک ڈائون کرے گی۔ کب ان سے قوم کو نجات ملے گی۔ یہ تمام سوالات جوابات کے متقاضی ہیں۔ بہت ہوچکا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملاوٹ مافیا کو لگام ڈالی جائے اور اس کے شر سے عوام الناس کو بچانے کا راست بندوبست کیا جائے۔ ملاوٹ مافیا کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک اس مافیا کا مکمل قلع قمع نہیں ہوجاتا۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button