Column

بچہ گود لے لو، ایک نیا فراڈ

تحریر : رفیع صحرائی
لٹیرے، ٹھگ باز، چور، ڈاکو اور فراڈیئے سبھی ایک قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب ایک جیسے بے حِس، ظالم اور سنگدِل ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کی بے خبری میں ہی انہیں ان کی دولت سے محروم نہیں کرتے بلکہ انہیں جذباتی طور پر بھی بلیک میل کر کے ان کی دولت لوٹ لیتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد ناجائز ذرائع استعمال کر کے دولت کمانا ہوتا ہے۔ اسلحہ کے زور پر چوری اور ڈاکہ کے علاوہ کبھی یہ لوگ آپ کو بذریعہ قرعہ اندازی دس تولہ سونا نکلنے کی نوید سناتے ہیں تو کبھی آپ کو ٹویوٹا کرولا کار کا مالک بننے کی خوشخبری سناتے ہیں۔ کبھی یہ آپ کو زم زم موبائل کی جانب سے انعامی موبائل دینے کی بات کرتے ہیں تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کی جانب سے ایک معقول رقم کی منظوری کی اطلاع دیتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد آپ کو چونا لگانا اور آپ کی دولت ہتھیانا ہوتا ہے۔ یہ لوگ قومی یا بین الاقوامی سانحات پر غمزدہ ہونے کی بجائے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں کمائی کا ایک مزید موقع مل گیا ہے۔ سیلاب یا زلزلہ آ جائے تو یہ ٹھگ باز متاثرین کی امداد کا ڈھونگ رچا کر نام نہاد فلاحی تنظیموں کے نام پر دولت اکٹھی کر لیتے ہیں۔ آج کل ان لٹیروں نے ایک نیا طریقہ واردات اختیار کر لیا ہے۔ آپ کو سوشل میڈیا پر ایک میسیج گردش کرتا نظر آ رہا ہو گا۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینی والدین کے تین ہزار بچے مفتی اعظم کے پاس آئے ہوئے ہیں۔ جو لوگ ان بچوں کو گود لینا چاہتے ہیں وہ دیئے گئے فون نمبر پر رابطہ کریں۔
یہ میسیج بے اولاد جوڑوں کے لیے بہت بڑی خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اولاد سے محرومی ایک ایسا دکھ ہے جسے بے اولاد ہی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کرب سے گزرنے والوں سے پوچھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ وہ اولاد کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں کوئی ایسا بچہ گود مل جائے جس کے والدین بھی دنیا میں موجود نہ ہوں تو ان کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہو گا۔ یہ احساس ہی بڑا خوشگوار ہو گا کہ وہ اچانک ایک بچے کے بلاشرکتِ غیرے والدین بن رہے ہیں۔غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ اسے اپنی غرض کے پورا کرنے کے لیے جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے وہ اختیار کرتا ہے اور جو قیمت دینی پڑے ادا کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک اولاد کو ترسے ہوئے دوست نے مفتی اعظم کے دیئے گئے نمبر پر فلسطینی بچے کو گود لینے کے لیے رابطہ کیا تو اسے بتایا گیا کہ آپ اپنا نام، پتا، موبائل فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر، کاروبار کی تفصیل، آمدن کے ذرائع اور ماہانہ آمدن کی تفصیلات نوٹ کروا دیں۔ اس کے ساتھ مبلغ دو ہزار روپے برائے رجسٹریشن فیس بذریعہ ایزی پیسہ بھیج کر اس کا سکرین شاٹ دیئے گئے نمبر پر بھیج دیں۔ مقررہ تاریخ تک وصول شدہ درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے مفتیانِ کرام کی مجلسِ شوریٰ اپنے خصوصی اجلاس میں میرٹ بنائے گی۔ اگر آپ شارٹ لسٹنگ میں آ گئے تو آپ مبلغ بیس ہزار روپے بطور ضمانت جمع کروائیں گے۔ اس کے بعد بچہ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ دو ہزار روپے کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ آسانی سے دی جا سکتی ہے مگر یہی دو ہزار جب کئی ہزار سے سے ضرب ہوں گے تو بات کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ یہ دو ہزار تو پھانسنے کے لیے ابتدائی مرحلہ ہے۔ بعد میں معلومات کی بنیاد پر ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے گا جنہیں آسانی سے ٹریپ کیا جا سکے۔ ان کے ساتھ نام نہاد مفتی اعظم کے دستِ راست ہونے کے مدعی ’’ خفیہ رابطہ‘‘ کر کے لاکھ دو لاکھ روپے کے عوض بچہ دینے کی یقینی ڈیل بھی کریں گے۔ اس طرح سے بھی ایک تگڑی رقم اکٹھی ہو سکے گی۔ اس کے بعد یقینی طور پر تمام درخواست دہندگان کو شارٹ لسٹ میں نام آنے کی خوشخبری دے کر بیس ہزار روپے بذریعہ ایزی پیسہ بھیجنے کی ہدایت کی جائے گی اور بچے کی وصولی کی تاریخ اور مقام بھی بتایا جائے گا۔ سادہ لوح لوگ جب بچہ لینے کے لیے مقررہ مقام پر پہنچیں گے تو پتا چلے گا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے جبکہ مفتئی اعظم کے موبائل نمبر بھی بند ملیں گے۔
یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان میں موجود فلسطینی سفارت خانہ نے سوشل میڈیا پر 3ہزار فلسطینی یتیم بچوں کو گود لینے سے متعلق خبروں کو جعلی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ترجمان فلسطینی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی سفارت خانہ ایسی خبروں کی مذمت کرتا ہے۔ ترجمان کے مطابق فلسطین کی پالیسی کے تحت فلسطینی یتیموں کی کفالت ریاست فلسطین کے اندر ہونی چاہیے۔ فلسطینی یتیموں کی کفالت ریاست کے باہر کرنے کی اجازت نہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی فلسطینی یتیم نہیں آیا۔
ہمارے ملک میں یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اس طرح دھوکہ دہی سے لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی پوچھتا نہیں ہے۔ ادارے بھی اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب یہ لٹیرے کروڑوں روپے لوٹنے کے بعد اپنے سراغ مٹا کر غائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ عوام کو خود بھی ایسے فراڈیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button