Column

پاکستان میں مہنگائی 50سال کی بلند ترین سطح پر

تحریر : ضیاء الحق سرحدی

وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات تو کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا جوکہ افسوسناک امر ہے پشاور سمیت ملک بھر میں مہنگائی نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بُری طرح نا کامیاب ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام کوماضی کی طرح فعال کیا جائے،حالانکہ میں نے اپنے کالموں کی انہی سطور میں کئی بار مجسٹریسی نظام کو دوبارہ شروع کرنے کا ذکر کیا تھا۔ دکاندار اپنے من پسند نرخوں پر اشیاء خورد ونوش فروخت کر رہے ہیں مہنگائی سے پریشان شہریوں نے انتظامیہ کی کارروائیوں اور جرمانے کے اعداد و شمار کو خانہ پوری قرار دیا ہے منافع خوروں کے سامنے پوری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران مہنگائی 50سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، سد باب کے لئے حکومتی اداروں کے اخراجات کم کئے جائیں۔ عالمی بنک کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974 ء کے بعد سب سے زیادہ ر ہی، اس رپورٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ میں بتا یا گیا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ ہوا، مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 50.6فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اسی عرصے میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 40.8فیصد تھی۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلی ششماہی میں اوسط مہنگائی 28.8فیصد رہی، گزشتہ سال اسی عرصے میں پاکستان میں اوسط مہنگائی 25فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق روپے کی قدر میں استحکام فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے باوجود مہنگائی بڑھی، عالمی مارکیٹ میں قیمتوں پر دبائو میں کمی کے باوجود بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی بینک سے لے کر اندرون ملک ارباب دانش تک ایک ہی بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے حکومتی اخراجات ختم کئے بغیر معیشت کو سدھار ناممکن نہیں۔ آج عالمی بینک نے جو کہا ہے، ہم ایک عرصہ سے اپنے اداریوں میں تسلسل کے ساتھ لکھتے آرہے ہیں کہ مہنگائی اور معاشی بدحالی کا طوفان روکنے کی خاطر لازم ہے کہ حکومتی اخراجات کم کئے جائیں۔ المیہ البتہ یہ ہے کہ حکومت کفائت شعاری کا اعلان ضرور کرتی ہے، بعض نمائشی اقدامات بھی کئے جاتے ہیں لیکن جن اخراجات کی دہائی عالمی بینک، اقوام متحدہ اور اندرون ملک ماہرین دے رہے ہیں، وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ حکومت کے تمام تر سخت فیصلے عوام کی گردن کے گرد پھندا مزید سخت کرنے اور اشرافیہ کی عیاشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اقوام متحدہ بتارہی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر صرف سبسڈیز اور ٹیکس نظام کو دھوکہ دے کر ڈکار رہی ہے، حکومت نے اس پر کوئی اقدام نہیں کیا۔ عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام نا کا رہ ہو گیا ہے، صرف اشرافیہ کی خدمت کرتا ہے، ہم نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ملکی ماہرین معیشت سوال اٹھار ہے ہیں کہ ایک تباہ حال معیشت کے حامل ملک میں بچوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو 550 ارب روپے کی مفت بجلی اور 220 ارب روپے کے مفت پٹرول کی فراہمی کا کوئی جواز نہیں، اگر اوسط 25 ہزار کمانے والا عام آدمی اپنا پیٹرول خود خریدتا ہے، بجلی کا بل خود ادا کرنے پر مجبور ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسر کو یہ سہولیات مفت کیوں دی جارہی ہیں؟ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ نجی بجلی گھروں کو حکومت سو فیصد پیداواری صلاحیت کی ادائیگی کرتی ہے تو ان سے سو فیصد پیداوار حاصل بھی کرے تو بجلی 17 روپے فی یونٹ تک سستی ہو سکتی ہے لیکن حکومت ایسا کرنے کو تیار نہیں کیونکہ تمام آئی پی پیز اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ ہمارے خیال میں حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام میں حکومت اور سیاست کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ اپنے بچوں کے لئے دووقت پیٹ بھر کر روٹی بھی پوری کرنے میں ناکام رہنے والے شہریوں کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ چکی ہے، مزید ایک کروڑ اس صف میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ ان کے درمیان جب حکومتی ذمہ داران شاہی پروٹوکول کے ساتھ نکلتے ہیں تو وہ انہیں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں، عوام ان کی عیاشیوں کو اپنی غربت کی وجہ سمجھتے ہیں جو کچھ ایساغلط نہیں ہیں۔ ارباب اختیار نے اگر وقت کی آواز کو نہ سنا اور نوشتہ دیوار نہ پڑھا، اپنی عیاشیاں جاری رکھیں تو وہ دن دور
نہیں جب بھوک کے ستائے عوام اپنا حق لینے کی خاطر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم بار بار لکھ رہے ہیں کہ پھر کوئی اس طوفان کوروکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا، کسی قیمت پر بھی نہیں۔ لہٰذا لازم ہے کہ وہ مرحلہ آنے سے پہلے حکومت سنبھل جائے، اشرافیہ سدھر جائے اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ شاہانہ اخراجات ختم کر کے عوام کو ریلیف کا بندو بست کریں ورنہ شائد یہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں۔ ایک سال میں گیس کی قیمتوں میں 520فیصد اضافہ ہوا، اس دوران بجلی ٹیرف میں 70 فیصد اضافہ ہوا، سالانہ بنیاد پر ٹرانسپورٹ کرائے 41 فیصد بڑھ گئے۔ وزیر اعظم اب بھی کہ رہے ہیں کہ’’ ہم عوام کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہیں گے‘‘۔ کاش کوئی اس موقع پر سوال اٹھا تا اور وزیر اعظم سے پوچھتا کہ وہ کس ملک کے شہریوں کی بات کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے تو انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نگران تو اب اپنا ساز ور لگا کر چلتے بنے ، اب نئی آنے والی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے عوام کو مہنگائی سے نجات دلوائے اور مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ مہنگائی کنٹرول کرنا اور معیشت کو سنبھالا دینا اگر کوئی چاہے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں اشرافیہ کی 17 ارب ڈالر کی عیاشیاں ختم کر دی جائیں تو آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے کی آگے ہاتھ پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والا طبقہ معاشی طور پر جس ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ ان حالات میں حکومت اگر مہنگائی پر قابو نہ پاسکی تو انتہائی غریب لوگوں کے لئے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ مہنگائی کی اس لہر سے عوامی سطح پر پریشانی پیدا ہوگی اور پہلے سے کمزور قوت خرید رکھنے والے عوام کے لئے ضروریات زندگی کو پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔عوام میں موجود بے چینی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو خطرہ موجود ہے کہ حکومت اور حکومتی پارٹی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچے گا ۔ اس وقت ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی ذمہ دار اپنے فرائض منصبی پوری دلجمعی کے ساتھ ادا نہیں کر رہا،ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے اور ’’ لاس د بری کار دے‘‘ والا معاملہ ہے ،جس کا جو جی چاہے وہ کر رہا ہے۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی سطح پر ان کی کوئی شنوائی نہیں اور نہ ہی کسی کو عوامی مسائل کی پرواہ دکھائی دیتی ہے،تمام سرکاری محکموں کابرا حال ہے، یہ سوچ ایک خطرناک رجحان اور عوام سے حکومتی ذمہ داران کے درمیان فاصلوں کو ظاہر کرتی ہے، جسے ختم نہ کیا گیا تو حکومت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جس سے ہر حال میں بچنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button