CM RizwanColumn

اسلام آباد کے بابو اور برسر اقتدار بابا

تحریر ، سی ایم رضوان
عہدہ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک عوامی جلسہ منعقدہ گڑھی خدا بخش میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایک مبہم عوامی فقرہ یہ بولا ہے کہ پاکستان غریب نہیں ہے اسے اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں کی سوچ نے غریب رکھا ہوا ہے۔ ان کے اس فقرے سے جو ٹوٹی پھوٹی سمجھ لگ رہی ہے وہ یہی ہے کہ ان کے مطابق وفاقی بیوروکریسی ملکی ترقی میں حائل ہے۔ دوسرے لفظوں میں شاید سرکاری فائلوں کو لگنے والے سرخ فیتے کو انہوں نے مورد الزام ٹھہرایا ہے جس سے عوامی ترقیاتی منصوبہ جات ٹھپ ہو جاتے ہیں یا جمہوری نظام کھٹائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دیا تھا۔ جن سے لب لباب یہی نکلتا ہے کہ ہماری سویلین حکومتیں افسر شاہی کے رویے کی شاکی ہیں حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو ہر سیاسی دور میں یہی افسر شاہی جابجا استعمال ہوتی اور تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اور حکمرانوں کو اس افسر شاہی سے کام لینے کا مکمل اختیار بھی حاصل ہوتا ہے لیکن شاید اصل وجہ یہ ہے کہ اندر کھاتے جب یہ سویلین سمجھوتے یا کسی آشیر باد سے اقتدار میں آتے ہیں تو ان کو افسر شاہی پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوتا یوں وہ حکمران ہوتے ہوئے بھی بیوروکریسی کے رویے کے مرہون منت یا شاکی ہوتے ہیں۔ اس معاملے کو کھنگالنے کے لئے پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ میں جھانکنا پڑے گا۔
پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ آزادی کے ایک سال 29دن بعد قائد اعظمؒ انتقال کر گئے اور پھر ہم 1956ء تک اپنا آئین بھی نہ بنا سکے اور اس وقت تک نہ صرف 1935ء کا انڈیا ایکٹ ہمارا آئین رہا بلکہ1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس آئین کی تشریح اور اس کے اختیارات استعمال کرنے والے بھی آئی سی ایس اعلیٰ افسر ملک غلام محمد، گورنر جنرل اور 1956ء کے آئین کے بعد صدر مملکت سکندر مرزا بھی آئی سی ایس افسر تھے اور پھر وزیر اعظم ہونے والے چودھری محمد علی بھی آئی سی ایس افسر تھے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد ایک عرصے تک ہمارے ہاں سر فرانسس موڈی صوبہ پنجاب کے، سر فیڈرک برائون مشرقی پاکستان کے، سر جارج کونگینگ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔ ان کے علاوہ بھی سات سینئر ترین بیوروکریٹ اور بہت سے انگریز افسران ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں تعینات رہے۔ جبکہ اگست 1947تا فروری 1948سر جنرل فرینک میسری اور ان کے بعد فروری 1948تا جنوری 1951سر جنرل ڈگلس گریسی فوج کے آرمی چیف رہے۔ ان کے بعد جنرل ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف ہوئے۔ اسی طرح اگست 1947 تا فروری 1949 پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر وائس مارشل پیری کین فروری 1949 تا مئی 1951 ایئر وائس مارشل آر ایل امرلی مئی 1951 تا جون 1955 ان کے بعد 1957 تک ایئر وائس مارشل اے ڈبلیو میکڈونلڈ پاک فضائیہ کے چیف رہے، ان کے بعد پہلے پاکستانی سربراہ ایئر مارشل اصغر خان تھے۔ اسی طرح پاکستان نیوی کے پہلے ایڈ مرل اگست 1947 تا فروری 1953 جے جیمز ولفریڈ تھے اور ان کے بعد پہلے پاکستانی ایڈمرل ایچ ایم ایس چودھری ہوئے۔ یہاں یہ امر بہت واضح ہے کہ اگر ہم بھی قیام پاکستان کے بعد ایک سال کے اندر اندر اپنا آئین بنا کر 1935کے انڈیا ایکٹ کی جگہ نافذ کر دیتے تو ہماری آزادی ’’ دراصل غلامی‘‘ نہ کہلاتی۔ اس کے برعکس بھارت میں جب آزادی کے تھوڑے عرصے بعد فوج کے لئے اسلحہ کی خریداری پر بھارتی وزیر دفاع پر سینئر ترین فوجی افسران نے دبا ڈالتے ہوئے استعفے پیش کئے تو وزیر اعظم نہرو نے یہ استعفے یہ کہہ کر فوری قبول کر لئے کہ مجھے یہ فیصلہ کرتے وقت تکلیف ہو رہی ہے مگر میں جمہوریت کو بھارت میں طاقتور دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہرو نے جلد ہی آئی سی ایس افسران کی قوت کو بھی کمزور کیا جبکہ ہمارے ہاں قائد اعظمؒ کے بعد آئی سی ایس افسران نے پاکستان کے تمام اداروں کو دبوچ لیا۔ 1947میں ہمارے پاس جو نمایاں آئی سی ایس مسلمان افسران آئے، ان میں آفتاب غلام علی، اے این جی قاضی، آغا شاہی، ایم ریاض الدین، چودھری محمد علی، محمد اکرام اللہ جو ہمارے پہلے فارن سیکرٹری رہے، عزیز احمد جو پہلے مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری اور پھر فارن سیکرٹری رہے، جے اے رحیم، مرزا سکندر علی بیگ، ایس کے دہلوی، اختر حسین جو پہلے چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیر دفاع اور پھر گورنر مغربی پاکستان رہے۔ ان کے علاوہ پاکستان آنے والے آئی سی ایس افسران میں آغا ہلالی، سابق فارن سیکرٹری، اے ٹی نقوی، ایس غیاث الدین، ایچ اے ماجد، سید فدا حسین، ایچ آر کیانی، ایس ایچ رضا، عبدالمجید، شیخ ناز الباقر، شہاب الدین، محمد شعیب، نصیر احمد فاروقی، مرزا مظفر، ایم ایم احمد، ایم ایم نیاز، قمر الاسلام اور قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔ ان میں بہت سے باکمال اور قدرے محب وطن آئی سی ایس افسران بھی شامل تھے مگر یہ نہایت تلخ حقیقت ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ان آئی سی ایس افسران نے آزادی کے بعد جب ان کے سینئر آئی سی ایس افسران نے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی، جمہوریت کو پامال کیا تو کسی نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اعلیٰ افسر شاہی کے جمہوریت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے خلاف کوئی احتجاج یا اصولی کام نہیں کیا۔ یہ درست ہے کہ چودھری محمد علی نے بطور وزیر اعظم 1956 کا آئین دیا مگر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد نیشنل بینک کا عہدہ لے لیا اور جب سینئر بیورو کریٹ سکندر مرزا نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آئین اور جمہوریت کو قربان کرتے ہو ئے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا اور ایوبی مارشل لاء کے بعد 1969 تک تشکیل پانے والی تین رکنی کابینہ میں محمد شعیب، اختر حسین اور شہاب الدین جیسے آئی سی ایس افسران ہی وفاقی وزراء کے طور پر اختیار کے مزے لوٹتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی جو افراد سی ایس پی افسر بنے ان میں سے اکثر نے نہ صرف غیرجمہوری حکومتوں کو مضبوط کیا اور ملک کو نقصان پہنچایا، ایوبی دور میں اسی بیوروکریسی نے محترمہ فاطمہ جناح کو بنیادی جمہوریت کے صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستان اور کراچی سے شکست دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد پشاور میں قائد اعظمؒ نے بیوروکریسی سے کہا تھا کہ یہ آزاد ملک ہے اور اب آپ عوام کے حاکم نہیں خادم ہیں مگر قدرت اللّٰہ شہاب جیسے دو ایک افسران کے علاوہ اکثریت نے قوم، ملک اور جمہوریت کو نقصان ہی پہنچایا، چند آئی سی ایس اور کچھ پی سی ایس افسران نے افسری چھوڑ دی، ان میں خواجہ خورشید انور، سنتوش کمار اور بعد میں راحت کاظمی، ایاز امیر اور ڈاکٹر محیط پیرزادہ جیسے شامل ہیں، مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، صدر ایوب خان نے چونکہ ملک غلام محمد، سکندر مرزا اور چودھری محمد علی کے علاوہ بہت سے بیوروکریٹس کے ساتھ کام کیا تھا اس لئے انہوں نے ان میں سے ان کو جو ان کے ساتھ نہ چل سکتے تھے مجبور کیا کہ وہ اپنا راستہ الگ کر لیں۔ پس 28جون 1959ء کو 12سی ایس پی سمیت 89 سینئر افسران نے استعفے دے دیئے، یہ محب وطن بیوروکریسی کے خلاف ملک میں پہلا قدم تھا، جس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ ملک کی ساری بیوروکریسی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے بلکہ ذاتی، گروہی مفادات کی غلام ہے۔ رہی سہی کسر 1969ء میں نکل گئی۔ جب صدر ایوب خان کی رخصتی اور صدر جنرل یحییٰ خان کی آمد کے وقت 303سی ایس پی اور سینئر افسران کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا، اس کے بعد اگست 1973میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر بیوروکریسی میں اصلاحات کرتے ہوئے 1300افسران کو فارغ کر دیا۔ اس دور سے آج تک بظاہر بیوروکریسی عدم تحفظ کا شکار ہے مگر عملاً اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک مالی کرپشن کا رجحان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ افسر شاہی ایک طرف تو جمہوری حکومتوں سے تعاون نہیں کرتی دوسری طرف رشوت اور سفارش کی روش اپنائے ہوئے ہے۔
بیوروکریسی کی ان قباحتوں کو جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں بھی تقویت ملی جب غلام اسحاق خان سمیت بہت سے بیورو کریٹ اہمیت اختیار کر گئے اور غلام اسحاق خان تو چیئرمین سینٹ اور صدارت کے عہد ے تک پہنچے۔ ان کے بعد سردار فاروق لغاری صدر ہوئے یہ بھی اس سے پہلے ڈی سی کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔ یہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بینظیر دور میں صدر ہوئے اور بینظیر بھٹو ہی کی حکومت کو برطرف بھی کیا، ضیاء دور میں بیوروکریسی اور سویلینز کے مابین سرد جنگ انتہا کو پہنچی۔ عام سطح پر مالی کرپشن کا بڑا حصہ یہی بیوروکریسی ہضم کرتی رہی۔ یوں پہلے بیوروکریسی ملک کی حکمران رہی پھر حکمران طبقے کے ساتھ کابینہ کے اراکین بن کر حکومتوں کا حصہ بن گئی۔ اب بیوروکریسی اور سیاست دان برابر کی اشرافیہ بن گئی ہیں۔ بیوروکریسی کی یہی طاقت اب صدر زرداری کو یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے بابو ملکی ترقی کے دشمن ہیں۔ اگرچہ ملک میں کرپشن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں شروع ہو چکی تھی مگر اُس وقت اتنا اندھیر نہیں مچا تھا اگر کسی سرکاری افسر یا اہلکار کے پاس زیادہ دولت کا گمان ہوتا تھا تو فوراً اُس کے خلاف تحقیقات شروع ہو جایا کرتی تھیں لیکن 80ء کی دہائی کے بعد تو یہ تصور ہی ختم ہو گیا کہ کوئی پوچھنے والا بھی ہے۔ 1999ء میں جب ہمارے قومی بجٹ کا خسارہ پچاس فیصد تک پہنچ گیا تھا اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرضے لئے جانے لگے تھے پھر جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا اور احتساب کا اعلان کرتے ہوئے کارروائیاں بھی عمل میں آئیں تو عوام کی اکثریت خوش ہوئی مگر بعد ازاں جب ڈیل اور بارگیننگ کی اصطلاحات نیب اور حکومت کی جانب سے سامنے آئیں تو اس انداز سے کرپشن کے رجحانات کو پہلے سے کہیں زیادہ تقویت ملی کہ الحفیظ و الامان۔ یہ تو واضح ہے کہ بیوروکریسی کے پاس اختیار ہے کہ وہ ہر اُس اجتماعی اور انفرادی اقدام کو روکے جس کی ملک کا قانون اجازت نہیں دیتا اور اس کے لئے اس وقت سی ایس ایس کے نظام کے تحت پورے ملک سے ذہین اور باصلاحیت لوگوں کی کھیپ افسری بھی کر رہی ہے مگر یہ افسری محض عوام پر رعب جمانے اور مال کمانے کے لئے ہے۔ موجودہ صدر آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بیوروکریسی کے پورے ڈھانچے میں تبدیلیاں کی تھیں۔ وہ ذہانت اور اہلیت کے لحاظ سے اپنی موت تک اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے وہ بیوروکریسی کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھ کر سواری کرنے کے ہنر سے بھی واقف تھے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ اب صدر زرداری نے اگر اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں کے خلاف ایک مبہم سا فقرہ بولا ہے تو انہیں بھی پوری ہمت درکار ہو گی۔ یہی وقت حاضر کا ایک سلگتا ہوا قومی مسئلہ ہے کاش کہ موجودہ سول حکمران تمام مسائل کی اس اصل جڑ کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کوئی قانون بنانے میں کامیاب ہو جائیں جس نے پاکستان جیسے شجر سایہ دار کو کانٹوں کا بستر بنا کے رکھ دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button