Column

برگر، موسیقی اور ارض مقدس

تحریر : خنیس الرحمن
غزہ میں اسرائیلی بربریت کو دو سو سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف بین الاقوامی ادارے، سلامتی کونسل، اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے فلسطینیوں کی منظم نسل کشی روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان دو سو دنوں کے دوران 42510 فلسطینیوں کو شہید اور لاپتہ کیا گیا جن میں 38621عام شہری شامل ہیں جبکہ 15780بچے اور10091خواتین شامل ہیں۔ ان دو سو دن میں140صحافی،485طبی کارکن اور 66سول ڈیفنس اہلکار بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اب بھی کئی ہزار شہدا ملبے تلے دبے ہیں جبکہ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ سوشل میڈیا ہم سب استعمال کرتے ہیں اور سب مناظر ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہیں۔ان تمام مظالم کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں بھی بلند کی جارہی ہیں۔ ان مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے جو اس جنگ میں اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور اسرائیل سے لانچ ہونے والی ہر مصنوعات کا بائیکاٹ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا کی مشہور فوڈ چین نے اسرائیل کی حمایت میں ٹینکوں کے سائے میں اپنے برگر کی تصاویر شیئر کیں اس کے بعد اس فوڈ چین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ مشرق وسطیٰ سمیت دیگر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، عوامی سطح پر فوڈ چین کا بائیکاٹ کیا گیا اور جاری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمرانوں کی فلسطین کے حوالے سے خاموشی معنی خیز ہے۔ آپ دیکھئے ایک طرف ہر طرف مشہور فوڈ چین کا بائیکاٹ چل رہا ہے اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب مری کے دورہ کے موقع پر ایک سکول کے وزٹ پر جاتی ہیں وہاں بچوں اور اساتذہ کے ہمراہ اسی فوڈ چین کے برگر کے ساتھ تصاویر شیئر کرتی ہیں ۔
اسی طرح ایک طرف آپ دیکھیں پوری دنیا میں مسلم کمیونٹی فلسطینی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ گزشتہ روز کی خبر ہے امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا اور ٹیکساس میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس دوران کئی طلبا کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اسی طرح کولمبیا یونیورسٹی میں گزشتہ ہفتے سو سے زائد طلبہ کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والا احتجاج امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں تک پھیل گیا۔ طلبہ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، اسرائیل کو امریکہ ہتھیاروں کی فراہمی کی روک تھام اور اسرائیل سے مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ کیلی فورنیا میں اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں تو احتجاج کی شدت اتنی بڑھ گئی یونیورسٹی کو اپنی کلاسز آن لائن کرنا پڑیں۔ نیویارک میں یونیورسٹی کے ایک کیمپس میں مظاہرے میں شریک چالیس سے زائد طلباء کو گرفتار کیا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی کی بات کریں تو وہاں کے طلبا نے کولمبیا ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپنے ہی سکول کے خلاف کیس دائر کیا کہ ہمارے سکول میں فلسطین کی حمایت پر مبنی پروگراموں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ تو یورپین ممالک کے کالجز و یونیورسٹیز کے طلباء کا فلسطین میں جاری نسل کشی کے خلاف مہم کا ایک جائزہ میں نے آپ کے سامنے رکھا اور پاکستان کی طرف دیکھیں وزیر اعلیٰ نے پنجاب کی سطح پر موسیقی مقابلے کا اعلان کیا ہے ۔ جس میں موسیقی سے شغف رکھنے والے نوجوانوں کے لیے انعامات بھی رکھے گئے۔ اس پر اسمبلی کے فلور پر بھی تنقید کی گئی ۔ آپ یہ دیکھیں ایک طرف امریکہ کی ریاستوں میں نوجوان فلسطین کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارے ہاں فلسطین پر کوئی موقف پیش کرنے کی بجائے نوجوانوں میں موسیقی کا ٹیلنٹ سرکاری سرپرستی میں تلاش کیا جارہا ہے۔
فلسطین کے ایشو پر شروع دن سے آپ کو مذہبی جماعتیں اور نجی این جی او ز احتجاج میں اور آواز بلند کرنے پر صف اول میں نظر آئیں گی۔ آپ اس ایشو پر حکومتی دلچسپی کا اندازہ یہاں سے لگائیں سینیٹر مشتاق خان کی اہلیہ حمیرا طیبہ کو سیو غزہ پرامن احتجاج پر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں شروع دن سے اس ایشو پر زور لگا رہی ہیں اسلام آباد میں تمام مسالک کی طرف سے قومی یکجہتی کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا۔ کراچی میں مرکزی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے فلسطین کی حمایت میں جلسے کئے۔ لاہور میں دو روز قبل جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمان نے فلسطین کی حمایت میں جلسہ کیا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور میں ایک بار پھر تمام مسالک کو جمع کر رہی ہے۔ جماعتوں تنظیموں کا کام صرف آواز بلند کرنا ہے، اصل موقف اور ایجنڈا پیش کر نا حکومت کا کام ہے، حکومت خدارا انتقامی سیاست اور سوشل میڈیا کی شعبدہ بازیوں سے نکلے اور فلسطین کے لیے اقدامات کرے یہ ہمارا قومی اور ملی اور سب سے بڑھ کر دینی فریضہ ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button