Column

ایک اور سیاسی جماعت

تحریر : سیدہ عنبرین
اقتدار کا وہ زمانہ ایک خاندان کیلئے کس قدر سہانا ہوگا جب ان کے انتہائی قریبی اور منظور نظر جناب رفیق تارڑ صدر تھے۔ جناب نواز شریف وزیر اعظم پاکستان ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب اور حمزہ شہباز ڈیفکیٹو وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتے نظر آئے اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے اہم عہدوں کیلئے انٹرویو بھی کیا کرتے تھے۔ صدر رفیق تارڑ کا گائوں تو لاہور سے کچھ فاصلے پر تھا۔ لیکن وہ عرصہ دراز سے لاہور منتقل ہوچکے تھے۔ پوں ملک کے تین اہم ترین عہدوں پر لاہور کا قبضہ تھا لاہور ہی پنجاب تھا اور لاہور ہی پاکستان سمجھ لیا گیا تھا۔ اس خاندانی فیصلے اور اہم عہدوں کو ایک ہی خاندان میں رکھنے پر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں ردعمل آنا شروع ہوا اور سوال اٹھنے لگا کہ قومی اسمبلی کے 342ارکان میں اس خاندان کے افراد کے علاوہ کوئی اور شخص اس قابل نہیں کہ اسے وزیر اعظم پاکستان بنایا جاسکے یا اسے وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جاسکے حتیٰ کہ مسلم لیگ ن کے صدر کیلئے بھی خاندان سے باہر کسی پر نظر انتخاب نہ پڑتی تھی ۔ یہ سوچ گہری ہونے لگی لیکن جنہوں نے اس پر سوچنا تھا ان کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان صرف ان کا ہے اور پنجاب پر بھی صرف ان کا ہی حق ہے۔ اسی سوچ کے نتیجے میں تین مرتبہ اقتدار ملا اور ہاتھ سے جاتا رہا، دو مرتبہ تو ایسا ہوا کہ صرف اقتدار ہی ہاتھ سے نہ گیا ساکھ بھی گئی۔ آج مرکز میں شین کی حکومت ہے پنجاب میں نون کی حکومت ہے چیئرمین سینیٹ کا تعلق جنوبی پنجاب اور پیپلز پارٹی سے ہے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری ہیں اور پیپلز پارٹی کے کو چیئر پرسن ہیں اس کاغذی عہدے کے علاوہ حقیقی چیئرمین بھی وہی ہیں اہم فیصلے وہی کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ہر فیصلے میں شامل ہوتے ہیں۔ دونوں میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا ایسی خبریں مخالفین اپنی تفریح طبع کیلئے گھڑتے ہیں اور وقتی لطف اٹھاتے ہیں ۔موجودہ سیٹ اپ بننیں سے پہلے پیپلز پارٹی سے فیصلہ کیا کہ وہ روحانی طور پر مرکزی حکومت کا حصہ ہو گی جسمانی طورپر نہیں یہ فیصلہ یقیناً کسی روحانی شخصیت نے دیا ہوگا لیکن عرف عام میں اسے جناب آصف زرداری اور بلاول بھٹو کا فیصلہ کہا جاتا ہے اسے ہی سچ سمجھا جاتا ہے، بعض اوقات سچ وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے یا قوم کو ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
آج نون سے قرب رکھنے والے یہ موقف رکھتے ہیں کہ ہمارے پاس تو حکومت فقط نام کی ہے ہم تو اپنی مرضی کے وزیر بھی نہیں لے سکے اور خاص طور پر اہم وزارتوں پر کہیں اور سے آنے والے براجمان ہوگئے جو کہیں اور سے ہدایات لیتے ہیں۔ اس سوچ کی حامل شخصیات نے اصرار کرنا شرو ع کیا ہے کہ اب جبکہ مقدمات اور نا اہلی ختم ہو چکی ہے لہذا جناب نواز شریف کو تاحیات قائد کے بے مقصد اور بے سروپا عہدے کی بجائے ایک مرتبہ پھر پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالنا چاہیے تا کہ کچھ طاقت اور پارٹی پر کھوئی ہوئی گرفت بحال ہو سکے اور پارٹی ممبران اور کارکن ان کی طرف بھی دیکھیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس نکتے پر اصرار کرنے کیلئے بھی انھوں سے ہی کہا جنہوں نے اب صدر بننا ہے۔پارٹی صدارت کیلئے خاندان سے باہر کسی شخصیت کا انتخاب کر لیا جاتا تو اسے جمہوری سوچ قرار دے کر ڈھول بجائے جاسکتے تھے لیکن کسی کو بھی ہمیشہ کی طرح اس قابل نہیں سمجھا گیا۔ اس سوچ سے اختلافات کرنے والوں کا مشورہ ہے کہ جناب نواز شریف خود پارٹی صدر بننے کی بجائے اپنے نواسے جنید صفدر کو پارٹی کا سربراہ بنا دیں۔ یوں حقیقی یوتھ کی نمائندگی بھی ہو جائے گی اور پارٹی کی سربراہی بھی گھر میں رہے گی۔ جنید صفدر سی زیادہ نو خیر پوری پارٹی میں اور کوئی نہیں ہے یوں اس حوالے سے پارٹی بازی لے جاتی۔
ہر اہم عہدہ اپنے خاندان میں رکھنے کی پالیسی نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا لیکن ذمہ داران نے اس کا ادراک نہ کیا لہذا موثر شخصیات کا ایک گروپ پارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گیا یہ قریباً تیس افراد تھے۔ جو ممبران قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آرہے تھے لیکن انہیں صرف قائدین کو ووٹ دیکر اعلیٰ عہدوں پر منتخب کرنے کے علاوہ کبھی کوئی اور ذمہ داری نہ ملی۔ وقت تیزی سے بدل گیا نون کی سوچ میں ذرہ بھر تبدیلی نہ آئی۔ اب ٹھیک چند ماہ بعد ن سے کچھ اور شخصیات اپنی نشستوں سے مستعفی ہو کر کسی اور طرف کا رخ کرتی نظر آتی ہیں ان شخصیات نے ابھی کھل کر اپنے فیصلے کا اعلان نہیں کیا لیکن نئی پارٹی بنانے والوں تک اپنے خیر سگالی کے جذبات پہنچا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے مختلف موقعوں پر اس بات کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔ پہلے انھوں نے مسلم لیگ کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دیا پھر انھوں نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا شاید وہ سمجھتے ہوں کہ یہ سیٹ اپ پائیدار نہیں زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ اب انھوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضع طور پر اعلان کر دیا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے رابطے مکمل ہو چکے۔ کاغذی کارروائیاں جاری ہیں۔ ماہ جون سے کچھ پہلے یا کچھ بعد پارٹی کا اعلان ہو جائے گا پھر وہی ہو گا جو ہمیشہ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے، مختلف سیاسی جماعتوں سے مختلف شخصیات مستعفی ہو کر اس میں شامل ہو جائینگی، پارٹی کی نمائندگی چاروں صوبوں اور وفاق میں ہو گی انھوں نے بعض اہم شخصیات کا نام لیکر بتایا کہ وہ نئی جماعت کی رونق بڑھانے کیلئے ان کے ساتھ ہو نگی۔
جناب شاہد خاقان عباسی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں انھوں نے زمانے کا سرد گرم خوب دیکھ رکھا ہے وہ نگران سیٹ اپ اور پی ڈی ایم حکومت کے زمانے میں کافی گرم گرم بھگت بھی چکے ہیں مگر ٹھنڈا مزاج رکھتے ہیں۔ بات بے بات سیخ پا نہیں ہوتے ان کی گفتگو میں استدلال نظر آتا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی پارٹی معرض وجود میں آنے کے بعد کیا نیا کام کریگی۔ جس سی پاکستان اور اہل پاکستان کے دیرینہ مسائل حل ہو سکیں گے کچھ موٹی موٹی باتیں تو بتائیں اس پر انھوں نے دلچسپ جواب دیا اور کہا موٹی موٹی باتوں سے زیادہ اہم چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن پر غور و فکر کرنے کے بعد عرصہ دراز سے جاری موٹی موٹی باتوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان تبدیلیوں سے ہی پاکستان کو درست راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔ صرف ن سے شین اور ن سے ق نکالنے کے تجربے ناکام ہوئے۔ انصاف ملا نہ پاکستان کو استحکام ملا۔ نہ ہی اس کی تقدیر بدلی البتہ یہ نعرہ دینے والوں کی تقدیر بدلتے زمانے نے دیکھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button