یہ نہیں ہوسکتا جناب

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں شائع حقائق کوئی تسلی بخش نہیں لیکن جمہوری حکومت نے بھی آنکھ، کان سب کچھ بند کر رکھا ہے۔ پروٹوکول سے فرصت نہیں۔ پہلے دور میں سرکار یا سرکاری ملازمین کیخلاف پرنٹ میڈیا پر خبر کا چھپنا عذاب سمجھا جاتا تھا، الیکٹرانک میڈیا کہیں نہیں تھا بس سرکاری میڈیا تھا۔ محکمہ جاتی کارروائی فوراً شروع ہو جاتی تھی، سرکاری ملازمین یا پھر عام شہری بھی چوکنا رہتا تھا کہ کہیں عزت پر حرف نہ آئے اور اب خبروں کی بھرمار ہے۔ ایسی ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی جس کو مہذب معاشرہ، جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہے، میں گوارہ نہیں تھیں۔ بیٹی ماں کا تقدس پامال ہوا۔ کھلے عام سرکاری ادارے ملکی مفادات کا سودا کرنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت چند ہزار خاندانوں کی محب وطنی سے ملک سلامت ہے۔ اس وقت سچ نہیں جھوٹ فروخت ہو رہا ہے۔ دنیا تیز ٹیکنالوجی سے معیشت اور اپنا دفاع مضبوط بنا رہی ہے، ممالک اپنے شہریوں کو نئی نئی سہولتیں دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلی کی تقریروں کا موازنہ کریں تو ہر ممبر دنیا کی جدید ترقی سے متاثر ہے اور ہر ممبر کی کوشش ہوگی کہ ویسا نظام سیاسی رہنمائوں کو میسر ہو، حکومت سرکاری خزانوں سے انتظام کرے۔ حقیقی حق دار عوام ہیں جنہوں نے ووٹ دے کر اسمبلی بھیجا۔ قوم تو بیانیہ کی مار کھا رہی ہے۔ اب ایسا نہیں کہ ملک چلانے والا نہیں ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں کوئی مثبت نتائج نہیں ہیں، تمام سرکاری محکموں اور غیر سرکاری سیکٹر میں لاقانونیت اور انتشار ہے۔ گزشتہ روز امّت اخبار نے میٹرک بورڈ کے امتحانات میں 10کروڑ روپے کی کرپشن ہونے کا انکشاف کیا۔ اس رپورٹ کے بعد وزیر تعلیم یا وزیراعلیٰ مراد علی شاہ صاحب کو ایکشن لینا چاہئے تھا لیکن ہر جگہ سب اچھا ہے کی رپورٹ ہے۔ بورڈ انتظامیہ نے بھی کانوں میں روئی ڈالی ہوئی ہے۔ راتوں رات بورڈ تبدیل کر دیئے گئے، سب سے زیادہ مشکلات کا شکار سرکاری سکول کے بچے ہیں۔ بورڈ انتظامیہ نے نجی سکولوں کی من مانی کیلئے معاشرتی اور تعلیم کی تفریق کو مزید بڑھا دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کے بچے زمین پر بیٹھ کر امتحان دے رہے ہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ خاموش ہیں۔ یہی بچے بعد میں حکومتی اقدامات کو تیز ترین انٹرنیٹ سے آنے والے دنوں میں ننگا کر رہے ہوں گے۔ ظلم کیخلاف انٹرنیٹ ایک مضبوط آواز ہے۔
یہ آواز اس بچی کے ہاتھ میں ہے جو زمین پر بیٹھ کر امتحان دے رہا ہے۔ پروفیسر رفعیہ ملاح نے نجی سکولوں کو پابند کیا ہے کہ 10سے 20فیصد غریب بچوں کو میرٹ پر داخلہ دیا جائے ۔ پرائیویٹ سکولز کے صدر نے اس آرڈر کے حوالے سے عجیب منطق دے دی۔ ہمارے ہاں آج بھی بنیادی تعلیم نظام کو تبدیل نہ کر سکے۔ تیز ٹیکنالوجی اس نظام کو ننگا کرتی رہی ہے۔ حالانکہ دنیا اس انٹر نیٹ ٹیکنالوجی سے اربوں ڈالر کما رہی ہے۔ آبادی میں نوجوان بے روزگار اور عورتوں کی فیصد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس فیصد اضافہ سے آئندہ سالوں میں ملکی مسائل اور حکومتی پالیسی پر تنقید میں مزید اضافہ ہو گا۔ ہمارے ہاں مرد نوکریوں سے محروم ہیں تو خواتین کا جی ڈی پی میں کردار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں تشدد اور خواتین پر تشدد کا رجحان زیادہ ہے۔ تشدد میں اضافہ کا تعلق معاشرہ میں سیاسی جماعتوں کا بیانیہ اور عدل و انصاف میں غیر مساوی سلوک اور منصوبہ بندی ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ 2022۔ 2023 میں خواتین پر ہونے والے ظلم کو رپورٹ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق عورت کا غیرت کے نام پر قتل سنہ 2022 میں 316تھا، جو کہ سنہ 2023میں کم ہو کر 226رہ گیا ۔ عورتوں کے ساتھ ریپ سنہ 2022میں 3901اور 2023 میں کم ہو کر 631رہ گئے ۔گینگ ریپ سنہ 2022میں 325اور 2023میں 277رہ گئے اور خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات 1022رپورٹ ہوئے جو کہ سنہ 2023میں 66رپورٹ ہوئے۔ عورتوں پر گھریلو تشدد میں کافی حد تک کمی ہوئی۔ ہمارے معاشرے کا نصف فیصد خواتین ہیں۔ ان کی تعلیم اور استعداد کار میں بہتری کے لیے حکومتی سطح پر کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ حکومت کو بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلئے کوئی کام نہیں کیا جا رہا بلکہ اداروں کی نیلامی کی جا رہی ہے ۔ ان کی نیلامی سے بھی معیشت سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ملک گروہوں میں جکڑا چکا ہے، ان گروہوں سے نجات ممکن نہیں اور موجودہ نظام میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ملک چلایا جا رہا ہے زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ حکومتی پالیسیاں نوجوانوں کو مزدور بنا رہی ہیں ۔ ملک کی آبادی پہلے ہی پسماندہ ہے۔ دیہاتوں کو چھوڑیں شہروں میں پنے کے پانی کی قلت ہے۔ لوگوں عام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ آنے والے چند سال میں پاکستان کو موسمی تبدیلی کا شدید خطرات لاحق ہیں ، 2010ء کے سیلاب کے بعد سے ہر سال سیلاب کا سامنا ہے ۔ دنیا موسمی تبدیلی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے اور ہمارے ہاں حکومت کو سیاسی مقدمات سے فرصت نہیں ہے۔ معاشرہ گروہوں میں تقسیم ہو رہا ہے اور ملک کو لوٹ رہے ہیں ۔