Column

کسان دشمن گندم پالیسی

تحریر : چودھری راحیل جہانگیر
ماضی میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی جتنی بھی حکومتیں بنیں ان میں کسانوں کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے انہیں ریلیف کے قابل نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے یہ طبقہ مسلم لیگ ن کا کبھی بھی حامی نہیں رہا۔ ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر پنجاب کے کاشتکاروں اور کسانوں کو ن لیگ کی حکومت سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں تھیں پھر بھی کچھ کسان تنظیموں کو یہ امید تھی کہ مریم نواز ایک عورت ہونے کی وجہ سے شائد اپنے بڑوں کی نسبت مختلف حکمران ثابت ہوں گی اور کسانوں کو درپیش مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں گی۔ کسی حد تک یہ بات سچ ثابت ہوتی نظر بھی آئی جب مریم نواز نے کسان کارڈ کے اجراء کا اعلان کیا۔ زرعی قرضوں کیلئے آسان پالیسیوں کا نفاذ کیا۔ ان اعلانات کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ گندم پرچیز پالیسی کا اعلان ہوگیا جس کے مطابق گندم کو اوپن کرتے ہوئے سرکاری ریٹ 3900روپے فی من کا اعلان کیا گیا۔ یہ ریٹ پچھلے سال کا تھا اس ایک سال میں تیل کھاد سبزیاں پھل گیس بجلی زرعی زمینوں کے ٹھیکے اور روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئیں اگر نہیں بڑھا تو گندم کا ریٹ نہیں بڑھا۔ پہلے کسانوں کو سیلاب نے تباہ و برباد کیا ان کی کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ مکئی کی فصل کے ریٹ اتنے نیچے چلے گئے کہ فی ایکڑ ہونے والے اخراجات بھی پورے نہیں ہوئے۔ ان بدترین مسائل اور مشکلات کا شکار کسان یہ سوچ کر گندم کی بوائی میں مصروف ہوگیا کہ گندم کی فصل اچھی ہوگی اور مناسب ریٹ مل گیا تو قرضے بھی اتر جائیں گے اور خوشحالی کا دور دورہ ہو جائے گا۔
گندم کی بوائی کے وقت کسانوں کو یوریا کھاد سرکاری ریٹ پر نہ مل سکی۔ کسانوں کو یہ بلیک میں خریدنا پڑی۔ سرکاری مشینری کسانوں کو سستی کھاد مہیا نہ کر سکی۔ یہی حال ڈیزل کا تھا۔ ریٹ بڑھنے کا سن کر پٹرول پمپوں سے تیل ملنا بند ہوجاتا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی تلوار ہر وقت کسان کی گردن پر لٹکی رہتی تھی۔ اس طرح فی ایکڑ اخراجات میں بھاری اضافہ ہو گیا کسانوں نے جیسے تیسے گندم کی فصل پکا لی۔ مکئی کی وجہ سے بھاری نقصان میں جانے والے کسانوں نے مکئی سے ہاتھ کھینچ کر وسیع پیمانے پر گندم کاشت کرلی۔ یہ خواب ذہن میں سمائے ہوئے تھے کہ فی ایکڑ پیداوار زیادہ ہوگی، مناسب ریٹ ملے گا جس سے قرضوں کی ادائیگی سمیت اخراجات کی وصولی بھی ہو جائے گی۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے گندم پالیسی کا اعلان ایک مذاق سے کم نہیں ہے یہ تو مرے کو مزید مارنے کے مترادف ہے۔ حکومتی پالیسی یہ تاثر قائم کر رہی ہے کہ حکومت کسانوں سے گندم خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ حکومت نے سرکاری طور گندم کی خریداری کا جو ہدف مقرر کیا ہے وہ گزشتہ سال سے آدھا ہے۔ حکومت نے ان کسانوں سے گندم خریدنے کا اعلان کیا ہے جو چھ ایکٹر کے مالک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بڑے زمیندار اپنی گندم کی فصل کو لے کر کہاں جائیں گے؟۔ حکومتی اعلان کے بعد فلور ملوں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں گندم 3200؍3300روپے فی چالیس کلوگرام میں فروخت ہو رہی ہے۔ گزشتہ سالوں میں حکومت کی طرف سے ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں گندم لے جانے پر پابندی عائد کی جاتی تھی تو فلور ملوں کو سرکاری ریٹ پر بھی گندم نہیں ملتی تھی۔ فلور ملیں سرکاری ریٹ سے زیادہ پر گندم خریدتی تھیں۔ اب بمپر کراپ ہونے کی وجہ سے حکومت ساری گندم خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور گندم کو اوپن کر دیا ہے جس سے گندم بھی مکئی کی طرح کم ریٹوں میں بکے گی جس کا فائدہ سرمایہ دار فلور ملوں اور ذخیرہ اندوزوں کو ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر حکومت گندم خریدنے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ حکومت نے روس سمیت دیگر ممالک سے گندم مہنگے داموں خرید کر لی تھی تاکہ آٹے کا بحران پیدا نہ ہو۔ باہر سے گندم امپورٹ کرنے سے گندم کے سٹاک تو بہتر ہوگئے مگر اس کا ملکی کسان کو نقصان ہو گیا۔ ہم باہر سے مہنگی گندم تو خرید لیتے ہیں مگر اپنے کسانوں کو وہی ریٹ نہیں دینا چاہتے۔ اس طرح ملکی کسان کا بدترین استحصال ہوتا ہے۔
ہر سال گندم کی خریداری کی پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ زراعت کی ترقی و خوشحالی ہی ملک کی ترقی و خوشحالی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنے کی بجائے توڑنے جیسے ہیں۔ حکومتی رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
کسان ہماری ملکی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے ہمیں اسے عزت و احترام دینا چاہیے جبکہ ہم اسے باردانہ کے حصول کے لئے سخت گرمی میں لمبی لائنوں میں لگا کر ذلیل کرتے ہیں۔ پالیسی ساز ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر زمینی حقائق کے برعکس پالیسیاں بناتے ہیں جس سے بہتری آنے کی بجائے ابتری آتی ہے۔ سرکاری طور پر آڑھتیوں کو مڈل مین قرار دے کر گندم پرچیز سینٹروں سے دور کر دیا گیا تاکہ کسانوں سے ڈائریکٹ گندم خرید کی جائے اور کسانوں کو ان کی فصل کی بہتر قیمت مل سکے لیکن سارا سال گرداوری سے لیکر زرعی قرضوں تک کھاد بیج تیل سپرے سے لیکر باردانہ کے حصول تک ہر جگہ کسان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کی گندم پرچیز پالیسی کو تمام کسان تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے اور گندم کے سرکاری ریٹ کو ناکافی قرار دے کر ریٹ میں اضافہ کا مطالبہ کیا ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں کسان تنظیمیں حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آ کر ریلیاں بھی نکالیں۔ ماضی میں کسان تنظیموں کی احتجاجی ریلیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مسائل حل نہیں کئے گئے۔ ان کے مطالبات یا تو مانے نہیں گئے اگر مانے بھی گئے ہیں تو ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ مریم نواز کی موجودہ پنجاب حکومت ماضی کی مسلم لیگی حکومتوں کا تسلسل ہے۔ کسانوں کو کسی لیگی حکومت میں کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا۔ کسانوں کو ریلیف جنرل مشرف، پیپلز پارٹی اور عمران خان کی حکومت نے دیا تھا۔ گندم کی موجودہ قیمت پیپلز پارٹی نے بڑھائی تھی ۔ موجودہ حالات میں کسان سخت پریشان ہیں گندم کا آخری دانہ خریدنے کا اعلان کرنے والی حکومت ایک دانہ خریدنے سے انکاری ہوتی جارہی ہے۔ کسان کو فلور ملوں اور اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھئے! کسان خوشحال ہوگا تو زراعت ترقی کرے گی۔ زراعت ترقی کرے گی تو ملک ترقی کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان دوست پالیسیاں مرتب کر کے لیگی حکومت کسان دشمن ہونے کے تاثر کو زائل کرے ورنہ ملکی کسان مزید بدحال ہو جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button