سعودی تجارتی وفد کا کامیاب دورہ پاکستان
تحریر : حبیب اللہ قمر
سعودی عرب کے نامور سرمایہ کاروں پر مشتمل وفد نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک کی قیادت میں پچاس ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جو کہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ وفد میں تیس سے زائد زراعت، ٹیکنالوجی، ریٹیل اور کارپوریٹ سیکٹر کی سعودی کمپنیوں کے سربراہان شامل تھے۔ وفد نے دورے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ انتہائی مسرت کے ساتھ واپس جا رہے ہیں اور سعودی عرب جا کر بتائیں گے کہ ہم نے پاکستان میں ایک نیا دور دیکھا ہے۔ سعودی وفد نے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے حوالے سے وزرا کی تیاری کو بے حد سراہا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کے کاروباری وفد کے دورے کو ملکی معیشت کے لیے اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی کمپنیوں نے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کا جائزہ لیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کار وفد کی پاکستان آمد سعودی عرب اور پاکستان کے معاشی تعلقات کے حوالے سے بہت اہم پیش رفت ہے۔ سعودی وفد کے سربراہ نے جس انداز میں پاکستانی حکام کی تعریف کی اس سے بے حد خوشی ہوئی ہے اور سعودی عرب کے وفد نے جس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا وہ میرے لیے باعث فخر ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اور پائیدار برادرانہ تعلقات ہر دور میں مضبوط و مستحکم رہے ہیں۔ برادر ملک ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ تمام معاملات پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کے تقریبا چار سال بعد 1951ء میں دونوں ملکوں کے مابین دوستی کا ایک معاہدہ ہوا، جس کے بعد شاہ سعود نے کراچی میں ایک ہاسنگ سکیم کی بنیاد رکھی جو آج سعود آباد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 1965ء کی پاک بھار ت جنگ ہوئی توسعودی عرب نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا۔ اسی طرح 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان برادر ملک کے ساتھ کھڑا رہا ، یعنی دونوں ملک اپنے اپنے طور پر دوستی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستانہ تعلقات اگرچہ شروع سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور حکومت میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان ہوں، دسمبر 1975ء میں ہونے والا سوات کا زلزلہ ہو یا 2005ء کا آزاد کشمیر اور خیبر پی کے میں آنے والا زلزلہ ہو، برادر ملک نے پاکستان کی ہمیشہ کھل کر مدد کی ہے۔ ایسے ہی 2010ء اور 2011ء میں آنے والے شدید سیلابوں کے دوران بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کا حق ادا کیا ہے۔ شاہ فیصل کا ذکر کیا جائے تو انہیں خاص طور پر پاکستانی عوام سے بے پناہ محبت تھی۔ فیصل مسجد اسلام آباد، پاکستان کا صنعتی شہر فیصل آباد اور کراچی کی شاہراہ فیصل انہی کے نام سے منسوب ہے۔ برادر ملک نے پاکستانی محنت کشوں کے لیے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے اور پاکستان کے خلاف دشمنان اسلام کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے لیے بھی مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔ بین الاقوامی دنیا کی طرف سے یہ بات بھی برملا تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کیے اور اس پر عالمی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے بڑے بھائی کی طرح پاکستان کی مدد کی اور اسے خود کو تنہا محسوس نہیں ہونے دیا۔ سوویت مخالف جنگ کے دوران بھی برادر ملک کا کردار انتہائی اہم رہا اور پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہر ممکن امداد فراہم کی جاتی رہی۔ 1980ء میں جب پاکستان زبردست معاشی بحران سے دوچار تھا، سعودی عرب نے اس موقع پر پاکستان کو یومیہ پچاس ہزار بیرل تیل فراہم کیا جس سے وطن عزیز کو اس بحران سے نکلنے میں مدد ملی۔ سعودی عرب پاکستان کو تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، 2013ء اور 2018ء میں معاشی بحرانوں کے دوران پاکستان کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا جاتا رہاہے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں ہی پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دئیے جانے کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک میں بھی کئی ارب ڈالرجمع کروائے گئے تاکہ پاکستان کی کرنسی کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔ پاکستان کے مختلف شہروں و علاقوں میں تعلیمی و رفاہی ادارے، ہسپتال، اسلامک سینٹر اور اسی انداز میں دوسری کاوشیں سعودی فرمانروائوں کی ترجیحات کا حصہ رہی ہیں۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان تو خاص طور پر پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دے چکے ہیں۔
سعودی عرب کے حوالے سے اگر کہا جائے کہ یہ خدمت اور سلامتی کا بحر بیکراں ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک دونوں ملکوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی ایک تابناک تاریخ ہے۔ یہ باہمی تعلقات اور دوستی ہر دور میں اپنے معیار پر پورا اتری ہے۔ او آئی سی اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر بھی دونوں ملکوں کا ہمیشہ ایک موقف رہا ہے۔ اس وقت بھی دونوں ملک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح دونوں ملکوں کے مابین دفاع کو اہمیت حاصل ہے، اسی طرح کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی مل کر کوششیں کی جائیں۔ سعودی سرمایہ کاروں کا حالیہ وفد بھی اسی حوالے سے ہی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور اس کے سعودی ہم منصب، کونسل سعودی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے جون 2000میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد دونوں برادر ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ، دوطرفہ تجارت اور مشترکہ منصوبوں کو فروغ دیناتھا۔ اسی طرح دونوں ممالک کے کاروباری اداروں کے درمیان روابط قائم کرنا اور کسی بھی ملک میں تجارتی تقریبات میں شرکت میں اضافہ کرنا بھی اس یادداشت میں شامل تھا۔ پچھلے تین چار برسوں سے دونوں ملکوں کی جانب سے کاروباری سرگرمیوں میں وسعت پیدا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک نے مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے سرمایہ کار پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے نجی شعبے آپس میں مضبوط روابط قائم کر کے ایک دوسرے کے ملک میں پائے جانے والے کاروباری مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ سعودی عرب کی معیشت کے کئی شعبوں بشمول کیمیکل انڈسٹری، رئیل اسٹیٹ اور سیاحت میں پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بھی پرکشش مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب کے تجارتی وفد کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ وفد سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رہنماں کا کہنا تھا کہ کا ن کنی و معدنیات، تیل و گیس، ہائوسنگ و تعمیرات، انفراسٹرکچر کی ترقی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فوڈ پروسیسنگ، خوردنی تیل، لاجسٹکس، کھیل، رینیوایبل انرجی، سیاحت اور مہمان نوازی سمیت پاکستان کی معیشت کے متعدد شعبوں میں سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش مواقع موجود ہیں۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی سرمایہ کاروں کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں پر زبردست خوشی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان سعودی بھائیوں کا دوسرا گھر ہے۔ وقت آگیا ہے کہ باہمی تعاون کو شراکت داری میں بدلا جائے۔ حقیقت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کو اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ طور پر بھرپور انداز میں کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس سے دونوں ملکوں کی معیشت بہتر ہو گی اور باہمی تجارت کا تخمینہ بھی پہلے سے کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاروں کا دورہ پاکستان بہت کامیاب رہا ہے اور کئی اہم معاہدوں سمیت دونوں ملکوں کے سرمایہ کاروں کو بہت سی نئی چیزیں سمجھنے کو ملی ہیں ، جس کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو بہت زیادہ فروغ ملے گا۔