Column

جیل جائو وطن مت چھوڑو

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
جنرل پرویز مشرف نے ایڈہاک پبلک اکائونٹس کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس میں بہترین منجے ہوئے بیوروکریٹ تھے ۔ اس کا چیئرمین بھی بیوروکریٹ لگایا گیا تھا۔ کمیٹی کے باقی ممبر بھی ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے۔ پہلی دفعہ اس کمیٹی کی میٹنگ میں میڈیا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ صحافی وہاں بیٹھ کر کارروائی کو رپورٹ کر سکتے تھے۔ ایک دن پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے سینیٹ سیکرٹریٹ اور قومی اسمبلی کی دو مختلف رپورٹس پیش کی گئی تھیں۔ پہلی رپورٹ اس دور کی تھی جب وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ تھے اور اس وقت کی جب یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی تھے۔ دنوں رپورٹس میں ایک طرح کے الزامات تھے۔ ان رپورٹس میں اختیارات کا غلط استعمال تھا جس میں نوکریاں دینا، ٹیلی فون کا استعمال اور گاڑیوں کا غلط استعمال شامل تھا۔ وسیم سجاد سے اٹھارہ لاکھ کی وصولی کے احکامات جاری کر دئیے گئے تھے۔ وسیم سجاد نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا بعد میں مشرف ( مرحوم ) نے صدر ہونے کی حیثیت سے وہ رقم معاف کر دی۔ اس کے بعد وسیم سجاد نے 2002کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔ سارا سودا اٹھارہ لاکھ میں ختم ہوا۔ دوسری رپورٹ قومی اسمبلی کے سپیکر یوسف رضا گیلانی کے خلاف تھی۔ رپورٹ سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب کو پہلے ہی نیب اس رپورٹ پر گرفتاری ڈال چکی ہے۔ کمیٹی یہ رپورٹ اپنی میٹنگ میں زیر بحث نہیں لا سکتی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اپنے اختیارات نیب کے سامنے سرنڈر کر دئیے۔ اگر وہ یوسف رضا گیلانی پر بننے والے آڈٹ پیروں کا فیصلہ کر دیتی جیسے وسیم سجاد کے سلسلے میں کیا گیا تھا تو شاید انہیں نیب عدالت سے 7سال قید اور دس کروڑ جرمانے کی سزا نہ ہوتی۔ انہیں کئی برس جیل میں نہ رہنا پڑتا۔
سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے اس نا انصافی کو ’’ دی نیوز ‘‘ اخبار میں تین کالم کی خبر بنا کر لگا دیا۔ یوسف رضا گیلانی اس وقت جیل میں تھے۔ اس خبر کی خبر ان کو جیل میں ملی۔ سینئر صحافی کلاسرا صاحب کا یوسف رضا گیلانی سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی گیلانی صاحب کلاسرا کو جانتے تھے۔ کلاسرا صاحب نے اپنی کتاب ’’ ایک سیاست کئی کہانیوں ‘‘ میں بھی لکھا ہے ۔ ایک دن جی نائن کے ہسپتال میں کلاسرا صاحب کو بلوا کر ان سے گیلانی صاحب کی ملاقات کرائی گئی۔ گیلانی صاحب اس رپورٹر سے ملنا چاہتے تھے۔ اس وقت گیلانی صاحب کی والدہ کو گرفتاری سے متعلق کوئی علم نہیں تھا۔ ان کی فیملی نے ان سے چھپا کر رکھا تھا۔ والدہ کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ وہ ہسپتال کے اس کمرہ میں رہتے ہیں۔ والدہ جب وہاں آئیں تو انہیں نے کمرے کی تعریف کی۔ کمرہ کی صفائی ستھری دیکھی تو والدہ نے کہا کہ اب وہ یہی رک جائیں گی۔ گیلانی صاحب کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا کہ وہ والدہ کو کیسے سمجھائیں کہ وہ تھوڑی دیر بعد جیل چلے جائیں گے۔ آخر گیلانی صاحب نے اپنی والدہ کو بتایا کہ جنرل مشرف بھی چاہتے ہیں کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں۔ اب اپ ہی بتائیں کہ کیا کرنا چاہئے ؟۔ اس پر ان کی والدہ نے کہا کہ بالکل نہیں ! کسی بھی قیمت پر انہیں اپنا ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے۔ چاہے تمہیں جیل میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ گیلانی صاحب نے والدہ کو کہا کہ پھر جنرل مشرف کی شرط ہے کہ وہ ہسپتال کے اس کمرے میں اکیلے رہیں۔ اس پر والدہ نے کہا تو چلیں یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ میں واپس ملتان چلی جاتی ہوں۔ تھوڑے عرصے کے بعد نیب نے گیلانی صاحب کو سزا سنائی تو والدہ سے یہ بات چھپائی گئی تھی لیکن خاندان کے کسی فرد نے لا شعور ی طور پر یہ بات ان کی والدہ کو بتا دی، ان کو ایسا صدمہ ہوا اور وہ صدمہ سن کر اللّہ کو پیاری ہو گئیں۔ ہمارے ہاں خدشات کھڑے کئے جاتے ہیں، قدرت کسی کے ساتھ برا نہیں کرتی، ہم خود ہی خود کے ساتھ برا کرتے ہیں، ہمارا اپنا اندر ٹھیک نہیں، کسی کی طرف جاری وار پر صبر نہیں کرتے بلکہ اس کا وار جلدی واپس لوٹاتے ہیں خواہ اپنا سب کچھ ہار دیں۔ ہمارے ہاں ہر فرد اس ڈگر پر چل نکلا ہے، گزرے دور کو یاد کر کے روتے ہیں، 5روپے کی روٹی یاد آتی ہے ۔ سرکاری سکول یاد آتے ہیں، لیکن آج سب کچھ بدلے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ انتقام اسمبلیوں تک پہنچ گیا ہے، اپنے پیاروں کے جنازوں میں شرکت سے محروم ہیں، یہ محرومی غریبوں کے نصیبوں میں لکھی گئی تھی، آج کل ایوان والوں کو بھی تنگ کر رہی ہے۔ معاشرہ کی ہر اکائی اس وقت بے بس اور معاشی طور پر کمزور ہو چکی ہے۔ جب بھی کمزور فرد نے اپنی آنکھیں کھولیں تو بڑے سے بڑے طاقتور کو شکست دے گا، یہ صورتحال اتنی جلدی سامنے نہیں آتی۔ ایسے حالات کی پیدائش میں کئی سال درکار ہوتے ہیں، یہ وہی کھلی آنکھیں ہیں جس کو انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب کی پرورش ان حالات میں پیدا ہوتی ہے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ جمہوری لوگ ایسے حالات کے شکار ہونے کے بعد بھی اپنے دور حکومت میں ایسے حالات دوسرے کے لیے پیدا کرکے ناانصافی کو پروان چڑھاتے ہیں، جس سے تفریق پیدا ہوتی ہے اور ملکی معیشت دن بدن کمزور ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button