ColumnRoshan Lal

ہم ٹیکس چور کیسے مشہور ہوئے؟

تحریر : روشن لعل
پاکستان کے متعلق یہ تصور عام ہے دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس چور اس ملک میں رہتے ہیں۔ یہ بات اگر کسی کو ناپسند ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ اس حد تک تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس چور بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اب اگر کسی کو ٹیکس چوروں کے متعلق یہ ترمیم شدہ بیان بھی ہضم نہ ہو رہا ہو تو اسے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی بدہضمی دائمی ہے۔ ایسے ’’ بدہضموں‘‘ کے ساتھ اگر کوئی ہر حال میں ہمدردی ظاہر کرنا چاہتا ہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی بد ہضمی کے لیے اپنی خوش خوراکی کے علاوہ ان لوگوں کی ہلا شیری بھی کام کرتی رہی جو سہولت کار کے طور پر ان کے لیے ڈکار مارے بغیر سب کچھ ہڑپ کر جانے کی راہ ہموار کرتے رہے۔ اب سب کچھ ہڑپ کر جانے والوں پر کوئی مزید ترس کھانا چا ہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ کل تک جو لوگ ان کے سہولت کار تھے آج وہی محتسب بنے بیٹھے ہیں۔
وطن عزیز میں ایک طرف یہ حالات ہیں کہ زرعی زمینیں انتہائی تیزی سے عالیشان بنگلوں سے مزین کالونیوں میں تبدیل ہورہی ہیں، بڑے ہی نہیں چھوٹے شہروں میں بھی بڑی بڑی گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن چکا ہی، غیر ملکی مصنوعات سے لدے پھدے نت نئے شاپنگ مال معرض وجود میں آرہے ہیں، اعلیٰ برانڈ کے پہناوے عام چلتے پھرتے لوگوں کے جسموں پر سجے نظر آتے ہیں، ہوشربا فیسوں والے سکولوں کی برانچیں ہر درمیانی آبادی میں کھل رہی ہیں اور لاکھوں کے پیکیج سے مذہبی سیاحت اور زیارتیں کرنا عام لوگوں کی خواہش اور چلنبن چکاہے۔ دوسری طرف 242.8 ملین آبادی والے اسی ملک میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے لوگ کل آبادی کا صرف 1.3فیصد ہیں اور ان لوگوں میں سے بھی 35فیصد نے اپنی ریٹرن میں ادا کردہ ٹیکس کی مد میں صفر لکھ کر یہ ظاہرکیا ہے کہ ان کی آمدن پر ٹیکس کی ادائیگی لاگو نہیں ہوتی۔ ملک میں مذکورہ دونوں قسم کے حالات دیکھ کر کیا کسی کا یہاں صاحب ثروت لوگوں کی اکثریت کو ٹیکس چور تصور کرنا بلا جواز قرار قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہماری پاک دھرتی میں لوگوں نے جس طرح سرعام جائیدادیں بنائیں، مذہبی اور غیر مذہبی جواز کے تحت بیرون ملک دورے کیے اور شاہانہ زندگی گزارنے کے باوجود ایک دھیلا انکم ٹیکس دینا گوارا نہ کیا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسی دیدہ دلیری کے لیے انہیں ضرور کسی نہ کسی نے محفوظ ماحول فراہم کیے رکھا۔ اس معاملے میں جو کچھ جس مقصد کے لیے کیا جاتا رہا قبل ازیں اس کی طرف اشارہ کرنا بھی ممکن نہیں تھا مگر آج جب ہر طرف ٹیکس چوری کا شوروغوغا ہے تو اس ضمن میں جان بوجھ کر چھپائی گئی کچھ سچائیوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
یہ ذکر ہے 1970کی دہائی کے آخری برسوں کا ہے جب ضیا مارشل لا کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضی کے حصول کے لیے بات چیت شروع کی۔ قرضہ دینے کی دیگر شرطوں کے ساتھ آئی ایم ایف نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس ( VAT) کے نفاذ کی شرط بھی رکھی ۔ ان دنوں پاکستان افغان جہاد میں امریکہ کا اتحادی تھا اس لیے آئی ایم ایف نے VATکی شرط منوائے بغیر قرضہ منظور کر لیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ VATایسا ٹیکس ہے جو کسی بھی شعبے میں جاری پیداواری عمل کے مختلف مرحلوں کے دوران نافذ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی اشیا کو بنانے میں استعمال ہونے والا خام مال پیداواری عمل کے جس بھی مرحلے سے گزرے اور حتمی طور پر تیار مال کی شکل میں صارف کی خرید اری سے قبل جہاں جہاں مختلف کاروباری لوگ اس کی خرید و فروخت کریں، وہاں ہر مرحلے پر دستاویزات میں اندراج کے ساتھ اس پر ٹیکس بھی لاگو ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خام مال کی تیاری کے ہر مرحلے پر پیداواری عمل سے وابستہ ہر فرد اور ادارہ خود سے متعلقہ ہر مرحلے کا دستاویزی ریکارڈ مرتب کرنے کے ساتھ ٹیکس بھی ادا کرے۔ VATکے نفاذ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے تحت ہر مینوفیکچرر اپنی معاشی سرگرمیوں کو ضروری دستاویزات میں درج کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ وہ ان دستاویزات میں یہ تفصیل درج کرنے کا پابند ہوتا ہے کہ اس نے کس قیمت پر کہاں سے کتنا خام مال خریدا اور خام مال کی کتنی مقدار سے اس نے تیار مال کے کس قدر آرٹیکل بنائے۔ اس عمل کے دوران نہ صرف اس کے اپنے خرچ اور آمدن کا ریکارڈ مرتب ہوتا رہتا ہے بلکہ قدرتی طور پر آڈٹ کا ایسا نیٹ ورک تیار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس مینوفیکچرر سے کاروباری لین دین کرنے والے دیگر افراد اور اداروں کے اعداو و شمار بھی خود بخود حکومت کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ یوں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ سے معاشی سرگرمیاں اس حد تک وستاویزی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہیں کہ کاروباری اداروں اور افراد کے لیے اپنی حقیقی آمدن چھپانا اور انکم ٹیکس کی ادائیگی سے فرار ممکن نہیں رہتا۔ آئی ایم ایف کے اصرار کے باوجود یہاں نہ VATنافذ ہو سکا اور نہ ہی بروقت دستاویزی معیشت کے کلچر کی بنیاد رکھی جا سکی۔ اس کے برعکس یہاں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر فروغ پاتا رہے اور اس کلچر سے حاصل کیا جانے والا والا کالا دھن اس ملک کی بنیادیں کھوکھلا کرتا رہا۔
ضیا دور کے بعد بھی آئی ایم ایف پاکستان پر VATکے نفاذ کے لیے زور دیتا رہا۔ 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو کی مشروط حکومت قائم ہوئی تو انہیں حکومت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا اور انہوں نے VATکے نفاذ پر آمادگی کا اظہار بھی کر دیا مگر داخلی مخالفت کی وجہ سے ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ سوچا جاسکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اگر VATنافذ کر کے یہاں دستاویزی معیشت کا نظام رائج کر دیتیں تو شاید کسی بالادست کو اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لیے مہران بنک لوٹنے کی ہمت نہ ہوتی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرائے جانے کے بعد جب نئے حکمرانوں پر بھی VATکے نفاذ کے لیے دبائو جاری رہا تو انہوں نے VATنافذ کر کے ٹیکس چوری روکنے کی بجائے عوام پر جنرل سیلز ٹیکس(GST) نافذ کر کے آئی ایم ایف کو مطمئن کر دیا۔ واضح رہے کہ GSTاس لحاظ سے VAT سے مختلف ہے کہ اس میں معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری نہیں ہوتا۔ یہاں مخصوص مقاصد کے تحت کی گئی مخالفت کی وجہ سے عرصہ تکVATنافذ نہ ہو سکا اور غیر دستاویزی معیشت کی وجہ سے جہادی سے دہشت گرد بن جانے والی تنظیمیں اور فلاح و بہبود کے نام پر خاندانی ایمپائر قائم کرنے والے لوگ کبھی زور زبردستی اور کبھی کسی ادارے کی سازش کے تحت ان صاحب حیثیت لوگوں سے بھاری رقوم کی شکل میں صدقہ خیرات اور چندے بٹورتے رہے جنہوں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ ریاست کو ٹیکس ادا کرنا بھی ان پر فرض ہے۔ اس دوران ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ یا تو خود خاموش تماشائی بنا رہا یا اسے خاموش تماشائی بنا دیا گیا۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں من حیث القوم دنیا میں کیسے ٹیکس چور تصور کر لیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button