Column

اغیار ہم پر کیوں رحم کریں؟

تحریر : شکیل امجد صادق
خاصی پرانی بات ہے۔ دھیرے دھیرے آتش جوان ہو رہا تھا۔ مسیں بھیگ چکی تھیں۔ مانگ سنوارنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ دن میں کئی بار آئینے کے سامنے ہونا معمول بن چکا تھا۔ کبھی کبھی بے قراری اور انہونی سوچیں اور خیال دل کے دریا میں غوطہ زن ہونے لگ گئے تھے۔ مگر ان خیالات نے زندگی میں میں کوئی بے ترتیبی پیدا نہیں کی تھی۔ گائوں کی پر فضا اور صاف شفاف فضا دیکھ کر تلور ( ایک پرندہ) کے غول کے غول کہیں سے ہجرت کر آئے۔ ان کی یہ ہجرت عارضی ہوتی ہے۔ موسم میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ واپس اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ہمارے سیاست دان مفاد پرستی کی فضا دیکھ کر پارٹی بدل لیتے ہیں۔ یہ پرندے حلال ہیں اور ان کا گوشت بڑے مزے کا ہوتا ہے۔ گائوں کے باسیوں نے اس پرندے کا شکار شروع کر دیا۔ جن جوانوں کا نشانہ گن سے پکا تھا ۔وہ گن سے شکار کرتے۔ کچھ جوان جال بچھا کر یہ فریضہ سر انجام دیتے۔ ہمیں بھی یہ شوق چرایا۔ ہم نے بھی دوستوں کے ہمراہ پروگرام بنایا۔ پروگرام بنانے میں ہم پہلے بھی بہت ماہر تھے۔ ہم نے بھی ایک جال لیا اور شکار کی سمت نکل گئے۔ ایک صاف زرعی جگہ دیکھ کر جال تہہ زمین پھیلا کر اوپر ہلکی ہلکی مٹی ڈال دی۔ ایسی ہی ہم عام سال ہا سال اپنی خواہشات، ضروریات اور جائز سہولیات نہ ملنے پر ڈال رہے ہیں۔ ہم تو ڈال ہی رہے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین اس معاملے میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ہم نے جال سے لیکر دو فرلانگ تک گندم کا ایک دانہ دانہ بکھیر دیا اور جال والی جگہ پر کافی دانے بکھیر دئیے۔ کچھ ہی دیر بعد چند تعداد میں تلور آئے۔ انہیں دیکھ کر اور پرندے بھی آگئے۔ دانہ چگتے چگتے وہ تلور اور پرندے ( جن میں کچھ جیالے،پٹواری ،یوتھیئے اور فصلی بٹیرے بھی تھے) جال تک آگئے۔ ہم نے پوری تاب کے ساتھ جال کھینچا ( ہم کون سا مرزا غالب کے تلامذہ میں سے تھے جن کے قویٰ مضمحل ہو گئے ہونگے) تو تمام پرندے جال میں پھنس گئے۔ تلور کے علاوہ دیگر پرندوں میں لوٹے پرندے یعنی کوا، طوطا، لالی، الو بھی شامل تھے۔ ہم نے تمام پرندے پکڑے۔ حلال پرندوں کو جائے موقع پر ہی ذبح کیا اور دیگر حرام خور پرندوں کو ان کے پر، چونچیں، انتڑیاں اور کھال نوچنے کیلئے وہیں چھوڑ دیا اور پس شجر ہو کر تماشا اہل کرم دیکھنے لگ گئے۔ ان پرندوں نے پل بھر میں صفایا کیا اور اڑ گئے۔ کووئوں نے کہیں اپنی سرداری جما لی۔ طوطوں نے حزب اختلاف کی ٹھان لی۔ الو چینی بلیک کرنے کے درپے ہوگئے۔ لالیوں نے سینیٹ کے ٹکٹ کے رولے ڈال لیے۔ گلہریاں کھاد اور گندم بلیک کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ ہم عوامی ذبح شدہ پرندے لیکر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔تمام پارٹیاں اپنی اپنی سیاست چمکانے، اقربا پروری کو فروغ دینے میں، اپنی جائیدادیں بنانے میں، لوٹ کھسوٹ کا مال اکھٹا کرنے میں، بینک بیلنس میں اضافہ کرنے میں جُتے ہوئی ہیں۔ ہم عوام ایک ایک دانہ چنتے چنتے ان کے جال میں مکمل پھنس چکے ہیں۔ یہ ہم ذبح کرتے ہیں۔ ہمارا خون چوستے ہیں۔ ہماری کھال اتارتے ہیں اور خود سردار بن جاتے ہیں۔ پوچھیں ہمارے بزرگوں سے، جہنوں نے اس ملک کو بنایا اور قربانیاں دیں۔ وہ احمد مشتاق کے بقول یہ کہتے ہیں۔
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
ہمیں کیا ملا؟ بھوک وہ بھی صدیوں کی بھوک، پیاس؟ جو دریائے فرات بھی نہیں بجھا سکتا۔ بیماری ؟ جس کیلئے کوئی مسیحا نہیں۔ بلکہ مسیحا بھی ڈاکو۔ جہالت۔ تعلیم تو ان کے بچوں کیلئے ہے۔ کہیں ملک کے اندر بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں میں اور کہیں بیرون ملک میں۔ بجلی جو اس قدر مہنگی کہ ہماری قسمت کے اندھیروں میں اضافہ ہو گیا۔ گیس؟ جو صرف ان کے محلوں میں ہے۔ پانی؟ جو آلودگی سے بھر پور ہے۔ ادویات؟ جو قوت خرید سے بہت آگے چلی گئی ہیں اور ان کا علاج بیرون ملک میں ہو رہا ہے۔ حیرت ہے اور صد حیرت ہے۔ ایک ہم ہیں کہ انہیں پوجے جا رہے ہیں۔ انہیں مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ انہیں خضر سمجھ رہے ہیں۔ انہیں رہنما سمجھ رہے ہیں۔ کیسا وقت آگیا ہے؟ کیسا دور وقت آگیا ہے؟ ہوش و حواس رکھتے ہوئے۔ عقل و فکرو آگہی رکھتے ہوئے ہم راہزنوں کو رہبر سمجھ رہے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں میں خود دھول جھونک رہے ہیں۔ اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مار رہے۔ اصل ہم خود اپنا، اپنی موجود نسل اور آنے والی نسل کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ایک بات پہ غور کریں جو آپ کو آگے چل کر مزید سمجھ آئے گی
قائد اعظمؒ نے فرمایا: میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں، ان کھوٹے سکوں سے مراد کون لوگ تھے ؟ ان سے مراد قائد اعظمؒ کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔ اب ایک دوسری بات کو پہلی بات سے جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا، قائد اعظمؒ اپنے آخری ایام میں زیارت میں مقیم ہیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنے وفد کے ساتھ قائد اعظمؒ کی عیادت کو جاتے ہیں ان کے واپس روانہ ہونے کے بعد قائد اعظمؒ فاطمہ جناح سے کہتے ہیں: فاطی ! تم جانتی ہو یہ لوگ کیوں آئے تھے ؟ فاطمہ جناح لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں تو قائد اعظمؒ دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں یہ لوگ یہ دیکھنے کیلئے آئے تھے کہ میں کتنے دن اور زندہ رہوں گا۔ یعنی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ جن کو لے کر قائد اعظمؒ کو تشویش بھی تھی اور کچھ لوگوں کے مکروہ کرداروں کا علم بھی ہو گیا تھا، خصوصاً ایوب خان کے حوالے سے قائدِ اعظمؒ کے احکامات کو رد کر دیا گیا تھا۔8جون 1949ء کو روس کے صدر جوزف سٹالن نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دورہ روس کی دعوت دی تھی۔ لیاقت علی خان نے اس دورے کی حامی بھی بھر لی تھی مگر پھر اچانک سب کچھ بدل گیا اور لیاقت علی خان مئی 1950میں امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے، حالانکہ فطری طور پر پاکستان کیلئے روس کا دورہ زیادہ مفید تھا تو پھر لیاقت علی خان نے پاکستان کے قومی مفادات پہ سمجھوتہ کیوں کیا ؟ یا انہیں اس کیلئے مجبور کیا گیا ؟ اور آپ کی معلومات کیلئے بتا دوں اسی دورے میں لیاقت علی خان امریکہ کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر کینیڈا بھی گئے تھے پاکستان کو بھارت سے الگ ایک سرزمین کے طور پر قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ پاکستان کو آزادی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اس لئے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی تاج برطانیہ کی باقیات نے پاکستان پر قبضہ کر لیا اور وہ قبضہ آج تک برقرار ہے یہ قبضہ شاید کچھ دہائیاں اور بھی برقرار رہتا اگر جنرل باجوہ اس قدر عجلت میں رجیم چینج نہ کرتا۔ رجیم چینج سازش نے پاکستان کی تاریخ کی تمام سازشوں کو عیاں کر دیا اور آج قوم یہ بھی جان چکی ہے کہ قابض قوتوں نے قائد اعظمؒ کی تقریر بھی سنسر کی تھی، پاکستان کا ٹوٹ کر بنگلہ دیش بننا بھی کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ سب کچھ پوری اور جامع منصوبہ بندی سے کیا گیا۔
جو سیاسی لیڈر مقبول ہوا اسے مار دیا گیا اور قیام پاکستان سے آج تک کسی وزیر اعظم کو عہدے کی مدت پوری کرنے نہ دی گئی۔ جبکہ انڈیا کو انگریز نے واقعی آزاد کر دیا تھا۔ انڈیا کا پہلا وزیر اعظم ہی پندرہ سال تک رہا اور ہندوستان کی سمت درست کر گیا۔ پچھتر سال بعد بھی ہماری قسمت نہیں بدلی۔ اگر یہ موقع نکل گیا اور ہم نے کچھ مثبت بدلا نہ کیا تو اگلی تین نسلیں اسی عذاب سے گزریں گی جس عذاب سے پچھلی پانچ نسلیں گزری ہیں۔ پاکستان اس وقت باقاعدہ امریکہ اور برطانیہ کی غلامی میں ہے۔ صرف چہروں کا فرق ہے باقی سب وہی ہے۔ حقیقی آزادی کیلئے بہترین اور مخلص لیڈروں کا ساتھ دینا ہو گا، نہیں تو پھر جنہوں نے قائد اعظمؒ اور فاطمہ جناح پر رحم نہیں کیا تھا، وہ آپ پہ رحم کیوں کریں گے ؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button