ColumnImtiaz Aasi

بات بنتی نظر نہیں آتی

تحریر : امتیاز عاصی
ہر طرف معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شور غوغا ہے معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہے۔ سوال ہے ملک میں استحکام آسمان سے اتر کر فرشتوں نے تو نہیں لانا اس کی فکر سیاست دانوں کو ہونی چاہیے۔ یہاں تو سیاست دانوں کو اقتدار کی فکر لاحق ہوتی ہے خواہ کچھ ہو جائے انہیں اقتدار ملنا چاہیے۔ یہ بات کھلاراز ہے طاقت ور حلقوں کی آشیر باد بغیر کسی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تقسیم کے وقت ہمارا ملک ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء کار کی طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ہمیں انگریز کی غلامی سے آزادی ملی تھی۔ قائد کی رحلت اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد طاقت ور حلقوں نے اقتدار پر ایسا شب خون مارا جس کے بعد یہ سلسلہ چلتا گیا اور ہمارا ملک کئی عشروں تک مارشل لاء کی لپیٹ میں رہا۔2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بادل نخواستہ انتخابی نتائج کو قبول کر لیا تاہم انتخابی دھاندلی کی پکار جاری رہی۔2023ء میں ہونے والے الیکشن نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور فارم 45اور47شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔9مئی کے سانحہ کے بعد سیاسی ماحول میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی عمران خان ان کی جماعت کے رہنمائوں اور ورکرز کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ عمران خان قسمت کے دھنی ہیں سانحہ نو مئی کے موقع پر وہ جوڈیشل کسٹڈی میں تھے ورنہ اب تک فوجی عدالت سے وہ سزا یاب ہو چکے ہوتے۔ قانون کی رو سے جب کوئی جوڈیشل کسٹڈی میں ہو ا باہر کسی قسم کے ہونے والے واقعہ میں ایسے شخص کو ملوث نہیں کیا جا سکتا گویا اس لحاظ سے عمران خان کو قانونی طور پر سانحہ نو مئی میں لائق تعزیر نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس سے پہلے عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد جو بیانیہ اختیار کیا عوام جوق در جوق اس کے ساتھ ہو لئے۔ دوسری طرف عمران خان نے طاقتور حلقوں کو under estimateکیا۔ عمران خان کے جلسوں میں عوام کی بہت بڑی تعداد کی شرکت نے طاقت ور حلقوں
میں ہلچل مچا دی۔ سانحہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں کی گرفتاریاں اور اس کے بعد پریس کانفرنسوں نے سیاسی ماحول کا نقشہ بدل دیا۔ عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے اسے داغ مفارقت دینا شرو ع کر دی اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور غلامی سے آزادی کے نعرے سے کسی صورت ہٹانے کو تیار نہیں ہوا۔ یہ بات درست ہے سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوا کرتی ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک زمانے میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھیسٹنے کو تیار تھے پھر وہ وقت آیا دونوں جماعتوں کے رہنما شیر و شکر ہوگئے اور اب تک یک زباں ہیں۔ دراصل اقتدار ایک ایسا آلہ ہے جس سے مستفید ہونے کی ہر سیاسی رہنما کی خواہش ہوتی ہے۔ نو مئی کے بعد عمران خان کے خلاف جیتنے مقدمات قائم کئے گئے وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالفین کے خلاف اتنے مقدمات نہیں بنائے تھے جیتنے پی ٹی آئی کے بانی کے خلاف قائم کئے گئے۔ یہ علیحدہ بات ہے بہت سے مقدمات میں عدالت نے ضمانت دے دی اور چند مقدمات میں وہ بری ہو گیا۔ عام طور پر عدالتیں جن مقدمات میں کوئی
ٹھوس مواد یا شہادت نہیں ہوتی سماعت کے ابتدائی مرحلے میں ملزمان کو بریت دے دیتی ہیں۔ چونکہ یہ مقدمات عمران خان کے خلاف تھے لہذا یہ بات واضح تھی عدالتوں پر کسی طرف سے دبائو ضرور ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر یہ عقدہ کھول دیا۔ حیرت ہے یہی چھ جج صاحبان سابق چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کو بھی ملے تھے لیکن ان کی شکایت پر وہ کوئی کارروائی نہیں کر سکے جو اس بات کا غماز ہے سابق چیف جسٹس دبائو کا شکار تھے۔ دنیا کی تاریخ میں نیلسن مینڈلا اور حضرت آیت اللہ خمینی کو ایک اعتبار سے یاد رکھا جائے گا مینڈلا کئی عشرے قید میں رہنے کے باوجود اپنے موقف سے نہیں ہٹے جب کہ آیت اللہ خمینی نے جلاوطنی کے دوران اپنے تقاریر کی کیسٹوں سے انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔ عمران خان چند ماہ کی قید کے بعد طاقتور حلقوں سے مذاکرات کرنے پر رضامند ہو چکے ہیں۔ سوال ہے کیا عمران خان کے مطالبات کی روشنی میں مقتدرہ کے لوگ پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے بات چیت کے لئے رضامند ی ظاہر کریں گے جس کا آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا آیا طاقت ور حلقے بشمول عمران خان پی ٹی آئی کے ورکرز کو رہا کرنے پر رضامند ہوںگے؟ دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے طاقتور حلقوں نے جنرل باجوہ کے دور میں یہ بات واضح کر دی تھی طاقت ور حلقے سیاسی معاملات میں اثر انداز نہیں ہوں گے۔ مقتدرہ سیاسی امور سے علیحدہ ہو جائے تو حکومت اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بات چیت کرنے دے تو کیا حرج ہے۔ آئینی طور پر طاقت ور حلقوں کی ذمہ داری ہے وہ سرحدوں کی حفاظت کریں اور بقول بانی پاکستان اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھیں سیاست دانوں کو آزادی سے ملک چلانے کا تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ اپوزیشن جماعتیں ملک میں آئین کی بالادستی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جماعت اسلامی نے اپنے طور پر جدوجہد کا عندیہ دے دیا ہے ۔ چنانچہ اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کی جدوجہد کے کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے مقتدرہ پی ٹی آئی کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے حق میں نہیں ہے لہذا عمران خان کے لئے بہتر تو یہی ہے وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرکے سرخرو ہوں۔ عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی سکت نہیں رکھتی نہ حکومت کے مستقبل میں کامیابی کے کوئی امکانات ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button