ColumnKashif Bashir Khan

مصنوعی بندوبست! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پنجاب اور خیبر پختونخوا، دوصوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جو نگران حکومتیں تشکیل دی گئی ہیں ان پر اپوزیشن کے شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں،بالخصوص پنجاب کی نگران حکومت اور نگران وزیر اعلیٰ پر تو اتحادی حکومتوں اورآصف علی زرداری کے دست راست ہونےکےناقابل تردید ثبوتوں کے بعد ان کی بطورنگران وزیر اعلی پنجاب تعیناتی سے الیکشن کمیشن،وفاقی حکومت اور مقتدر اداروں کی عزت میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب تو سوشل میڈیا سمیت ہرجگہ پنجاب کی نگران حکومت جو تحریک انصاف کے مخالف افسروں کی تعیناتی کر رہی ہے نے آنے والے دنوں میں( اگر صوبائی انتخابات ہوتے ہیں)نگران حکومت کی ساکھ پر بہت بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگران حکومت تشکیل دیتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ صوبے میں تبادلوں اور تقرریوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اگر کوئی تبادلہ بہت ضروری ہوا تو اس کیلئے نگران حکومت کو الیکشن کمیشن سے پیشگی اجازت درکار ہو گی۔لاہور کے سی سی پی او اور آئی جی سے لیکر مختلف اداروں کے سربراہان کو تبدیل کرنے کے روزانہ کے عمل نے سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف اور عوام میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔لاہور سمیت مختلف اضلاع کے کمشنرز کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے اور شنید ہے کہ ان تعیناتیوں کے پیچھے وفاقی حکومت ہے۔اِن دھڑادھڑ تعیناتیوں اور تبادلوں پر اگر الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے فوری ایکشن نہ لیا تو عوام اور الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی کہ پنجاب میں انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کو روندنے اور دھاندلی کرنے کی کوششوں میں وفاقی حکومت، نگران پنجاب حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ملا ہوا ہے اور یہ ایک گٹھ جوڑ ہے جو کہ پنجاب و خیبر پختونخوا میں انتخابات کو دھاندلی کے ذریعے عوام سے چرانا چاہتا ہے۔
پنجاب کے لاتعداد آر پی اوز و ڈی پی اوز سمیت ایس پی حضرات کے حالیہ تبادلے سیاسی ماحول کو نہایت کشیدہ بنا رہے ہیں اور زبان زد عام ہے کہ سیاسی طور پر بدترین شکست کی شکار نون لیگ اور پی پی پی اب ماضی کی طرح عوام کے مینڈیٹ پر حکومتی و اداراتی مدد کے ساتھ ڈاکا مارنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری اور ادھوری قومی اسمبلی میں ڈمی اور منحرف اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی تقرری بھی سپریم کورٹ میں تحریک انصاف چیلنج کر چکی ہے۔یہ امر باعث تشویش اور افسوس ہے کہ جو کچھ اس وقت دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ نہ دے کر اور مشکوک نگران حکومت پنجاب بنا کر کیا جا رہا ہے وہ صریحاً آئین پاکستان سے انحراف ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پچھلے ایک سال کے تمام متنازعہ فیصلوں کو اعلیٰ عدالتیں رد کر کے مسترد کر چکی ہیں اور پاکستان کے نظام کیلئے خطرناک ترین حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام فیصلے تحریک انصاف کے خلاف آرہے ہیں بلکہ مسلسل آ رہے ہیں،پنجاب میں موجود نگران حکومت کی جانب سے تبادلوں کے سیلاب کو آنے والے انتخابات میں دھاندلی کیلئے فیلڈ سیٹنگ قرار دیا جا رہا ہے اور سنجیدہ حلقے ان تبادلوں کو اتحادی وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کاگٹھ جوڑقرار دے رہے ہیں۔
ماضی میں بینظیر بھٹو کو اٹھارہ ماہ میں حکومت سے فارغ کر کے نواز شریف کو غلام مصطفی جتوئی کی جگہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنایا گیا تو اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان الیکشن والے دن خود الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر جا پہنچے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو کی الیکشن میں ہار کا اعلان کروا کر صدارتی محل واپس گئے تھے۔آئین پاکستان میں درج ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ نہایت ضروری تبادلے کر سکتا ہے لیکن پنجاب کے بیشتر اضلاع میں آر پی اوز اور ڈی پی اوز کے تبادلے اور ان سیٹوں پر ڈاکٹر حیدر اشرف اور کیپٹن سہیل و دوسرے افسران(جن کا تعلق شریف فیملی سے سمجھا جاتا ہے) کی تعیناتیاں جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران میں مایوسی کا سبب بنے گی وہاں پنجاب میں ہونے والے انتخابات کو بھی شفاف نہیں رہنے دیں گی۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جہاں ملک وقوم کا اربوں لوٹنے والوں کے مقدمات نیب کورٹس سے واپس ہو کر ختم ہو رہے ہیں وہاں انسانی حقوق کی شدید پامالی ہو رہی ہے اور سیاسی انتقام لیتے ہوئے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں،جس طریقہ سے شہباز گل کا مجسٹریٹ نے جوڈیشل ریمانڈ دیا تھا لیکن اگلے ہی دن اس ریمانڈ کے خلاف درخواست دے کر اس ریمانڈ کو ختم کروا کر پھر سے پولیس کو ریمانڈ دے دیا گیا تھا بالکل ویسے ہی تحریک انصاف کے ترجمان اور پاکستان کے صف اول کے رہنما فواد چودھری کے ساتھ کیا گیا ہے جس نے پاکستان کے عدالتی نظام کی خود مختاری اور آزادی پر شدید سوالات اٹھا دیئے ہیں۔فواد چودھری کے خلاف مقدمہ درج کروا کر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ثابت کیا ہے کہ وہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جانبدار ہیں اور آنے والے دنوں میں جو الیکشن ہونے جا رہے ہیں ان کا کردار مشکوک ترین ہو چکا۔پاکستان کو اس وقت دنیا بھر میں بنانا اسٹیٹ کہہ کر ہماری قومی ہمیت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس وقت پاکستان میں ہونے والی انتقامی کارروائیوں پر آواز اٹھا رہی ہیں لیکن پی ڈی ایم کی قیادت ملک کو معاشی تباہی سے ہمکنار کرنے کے باوجود قانون و آئین کو روندتے ہوئے ملک کے اقتدار کو الیکشن لڑے بغیر اپنے قبضے میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ جہاں عمران خان کی جان کو شدید خطرات کے باوجود نگران حکومت نے ان کی سکیورٹی واپس لے لی ہے، وہاں نیب کے مقدمات سے بری ہونے والی مریم نواز کی دبئی سے واپسی پر لاہور میں پولیس کے ہزاروں اہلکار تعین کرنے والی نگران پنجاب حکومت کبھی غیر جانبدار کہلا سکتی ہے؟پاکستان کے عوام نے ماضی میں اگرتلہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمان کو ملوث کر کے غدار قرار دینے اور بنگالیوں کے مینڈیٹ پر ڈاکا مارنے کا جو نتیجہ دیکھا تھا وہ کئی دہائیوں تک ہمیں خون کے آنسو رلاتا رہا تھا لیکن چارہ سازوں نے سانحہ ڈھاکا کے پچاس سال بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج بھی عوام کا مینڈیٹ روندنے اور سیاسی قیادت کوغدار قرار دینے کا چلن پھر سے عام کیا جارہا ہے۔ایسے کسی مصنوعی سیاسی و حکومتی بندوبست کا اہتمام کرتے ہوئےچارہ سازوں کو سمجھنا ہو گا کہ بدترین معاشی صورتحال کے شکار عوام کے دلوں میں جو راکھ میں دبی چنگاری ہے وہ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے اور پھر نہ اقتدار رہے گا اورنہ حالات چارہ سازوں کے بس میں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button