CM RizwanColumn

سیاسی طوفان اور ہمارے نوجوان ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

ایک وقت وہ تھا جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کیلئے برصغیر پاک و ہند کے نوجوانوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد، منظم اور فعال کیا تھا اور انہیں غاصب انگریزوں اور موقع پرست ہندوؤں کے خلاف سیاسی شعور سے بہرہ ور کر کے آزادی کی تحریک میں شامل کیا تھا۔ پھر چند ہی سالوں میں ان مسلم نوجوانوں کے ہراول دستے نے ’’بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ جیسی حقیقت کو منوا لیا اور انگریز اپنے ہاتھوں سے تقسیم ہندوستان کی لکیر لگانے پر مجبور ہو گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ ان کی زندگی نے وفا نہ کی یا ان کی جیب میں موجود چند کھوٹے سکوں نے کام دکھایا اور وہ ایک سال بعد راہی ملک عدم ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد سے لے کر آج تک آنے والے ہر حکمران نے اور ہر پستہ قامت سیاسی لیڈر نے قائد اعظم ثانی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا مگر کوئی بھی ان کے سیاسی قد کے گھٹنوں تک نہ پہنچ سکا۔ ظاہر ہے ملک نے بھی پھر دن بدن نیچے تنزلی کی طرف ہی جانا تھا۔
آج یہ صورتحال ہے کہ ایک طرف معاشی سٹرکچر تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے اور معاشی ایمرجنسی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف سیاسی افراتفری اور کمینگی کی حد تک سیاسی نفرتوں نے مارشل لاء کے نفاذ کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ جھوٹ، منافقت اور وعدہ خلافی جیسے سامان سے بھری سیاسی دکانیں چل رہی ہیں۔ کوئی ایک سیاستدان بھی قابل بھروسہ نہیں رہا مگر مقام مرگ کہ ان سب کا سامان دھڑا دھڑ فروخت ہو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شب برأت پر لوگ عبادت کی بجائے پٹاخے اور آتش بازی کا سامان خریدتے ہیں۔ چال باز، مکار اور موقع پرست سیاست دانوں نے ماحول اس قدر جوشیلا اور گرم کر دیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا کارکن مرنے مارنے پر تلا بیٹھا ہے، اس یقین کے باوجود کہ ان تمام جماعتوں کے قائدین جھوٹے اور وعدہ خلاف ہیں۔ اس یقین کے باوجود کہ جو بھی حکمران آئے گا کاسہ لے کر گدائی کرنے پر مجبور ہو گا۔ جو بھی آئے گا وعدہ خلافی کرے گا، جو بھی آئے گا جاری راشی نظام کو مزید فعال اور
مضبوط کرے گا۔ اس کے باوجود ہر کوئی اپنے سیاسی قائد سے پیار اور وطن عزیز سے دشمنی کی روش پر کاربند چلے جا رہا ہے۔ یہ تمام تر بکواسیات اور سیاسی بدتمیزیاں ثابت کرتی ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے اس ملک میں مخلص، سنجیدہ، مستحکم اور بالغ نظر سیاسی نظام ابھی تک قائم ہی نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کے سیاستدانوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ سیاست میں کامیابی کیلئے عوام کی مرضی نہیں بلکہ عوام دشمن اشرافیہ کی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالے بغیر اقتدارِ حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک یہ پٹہ ان کے گلے میں رہے گا اقتدارِ کا ہما بھی ان کے سر پر رہے گا اور جب بھی یہ پٹہ ان کے گلے میں نہ رہا تو وہ اقتدار سے بغیر کسی اصول اور توقف کے علیحدہ کر دیئے جائیں گے۔ لہٰذا جب بھی کسی سیاستدان کے گلے سے یہ پٹہ اس کی کسی اپنی دانستہ یا نادانستہ غلطی یا اشرافیہ کی روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اتر جاتا ہے تو وہ پاگل ہو کر ملک وقوم کے خلاف سازشوں کا اعلان اور آغاز کردیتا ہے۔ ہر طرح کی دھمکی اور ہر طرح کی پرکشش دلالی کی بھی آفر کر دیتا ہے۔ وہ یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ تاحیات غلام رہنے کا معاہدہ کرنے کو تیار ہوں بس مجھے اقتدار دے دو اور میرے اقتدار کے عرصے کو طوالت دیتے جاؤ میں عوام کا خون، گوشت اور ہڈیاں تک نوچ نوچ کر سسٹم کو کھلانے کو تیار ہوں بس مجھے اور میری پارٹی کو اقتدار سے محروم نہ کرنا۔ اگر پھر بھی اقتدار کی بھیک نہ ملے تو بلک بلک کر کہتا ہے کہ کیا ہم جانور ہیں؟ کیا ہم غلام ہیں؟ دوسری طرف عوام کی جہالت اور عاقبت نااندیشی بھی کار فرما ہوتی ہے کہ وہ ہر جھوٹے اور بیان باز کو اپنا سیاسی رہنما مان لیتے ہیں کیونکہ کسی بھی ملک میں مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام وہاں کے عوام کے سیاسی شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ باشعور قوم کے عوام جھوٹے سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنتے اور سیاست دانوں کو اپنے جذبات سے کھیلنے بھی نہیں دیتے، بلکہ وہ سیاست دانوں کے غلط فیصلوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہاں ایسا کوئی ماحول ہی نہیں اس وجہ سے پاکستان میں غربت، جہالت، بے روزگاری اور امن و امان کی ابتر صورتِحال ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی عدمِ دستیابی نے عوام کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ روزمرّہ ضروریات پورا کرنے کی مصروفیات اور پریشانیوں نے عوام کے سماجی شعور کو گہنا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کے ہاتھوں بار بار نقصان اٹھا چکے ہیں،یہاں تک کہ اب ملکی سیاسی نظام میں عام پاکستانی کے سیاسی، سماجی اور معاشی تحفظ و ترقی کا کوئی سامان ہی نہیں بچا۔ عوام میں سیاسی شعور کی کمی کے باعث آئے دن سیاست دان ان کے جذبات سے کھیلتے اور انہیں نئے وعدوں سے بہلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عوام کے مجموعی سیاسی شعور میں کمی کے باعث عوام کا صرف سیاست دان ہی استحصال نہیں کرتے۔انتظامیہ بھی ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھتی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے حقوق اور فرائض سے متعلق آگہی نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے ادارے انہیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانکتے ہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی بوجوہ بہت سے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل کے حوالے سے گہری کھائی میں جا گرا تھا۔ چونکہ ان مسائل کو کبھی بھی حل نہیں کیا گیا لہٰذا اب یہ مسائل چیلنج کا روپ دھار چکے ہیں۔ ستم یہ کہ عام پاکستانی کی جہالت سے مستفید ہونے والے کچھ عناصر اس دیمک زدہ نظام کے ڈھانچے سے کچھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ ان عفریتوں سے اب چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کمزور معاشی حالات، ناقص تعلیم، غربت، روزگار اور ترقی کے کم ہوتے مواقع، منفی مذہبی اور سیاسی اثرورسوخ، امن و امان کی خراب صورتحال اور ناانصافیوں نے عوام میں سے نوجوان نسل کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی، جرائم، جہالت اور نفرت کی طرف ایسا مائل کردیا ہے کہ جو نوجوان طبقہ عوام کی اُمنگوں کا ترجمان بن سکتا تھا وہ خود نفسیاتی مریض ہوتا چلا جارہا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد نوجوانوں کو یہاں کے نظام نے خصوصی طور پر اپنا ہدف بنایا اور انہیں نہ صرف سیاسی اور سماجی ترقی کے شعور سے محروم رکھا گیا بلکہ حکومتوں اور حکومتی اداروں نے انہیں مذہبی عسکریت پسندوں کی جھولی میں ڈال دیا، جنہوں نے ان کے سماجی، معاشی، شہری، سیاسی اور ثقافتی حقوق اور شناخت کو پامال کر کے رکھ دیا۔ گوکہ آج ان مذہبی عسکریت پسند جماعتوں نے اپنے اس جرم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن وہ اس طرح سے حقائق کو نہیں مٹا سکتے۔ آج بھی ہمارے نوجوان کا سیاسی شعور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج بھی ہر نوجوان کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے لیکن سیاست کو کسی روایتی سیاستدان سے متاثر ہوکر نہیں اپنانا چاہیے بلکہ ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر کو پرکھنے کے بعد اپنے لیے صحیح سیاسی جماعت اور سیاسی نظریہ کا انتخاب کرنا چاہیے، کیوں کہ سیاست معاشرتی ترقی کا اہم جزو ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خراب سیاسی نظام کے نتیجے میں ہر روز ہزاروں لوگ اپنی جان اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان کو آگاہ رہناچاہیے کہ آج ماحول میں کیا ہو رہا ہے۔ ماضی قریب و بعید میں کیا سیاسی ترجیحات تھیں اور اب نظام میں کون سے نئے قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں اور اس نظام کی خرابی کی حقیقی نوعیت کیا ہے۔ ماضی اور حال کے تقابل اور موازنہ سے ہی صحیح سیاسی سمت کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے نوجوانوں کو اندھا دُھند سیاسی تقلید سے بچنا چاہیے۔ اسے اپنے شعور کو صیقل کرنا چاہیے اور سیاسی جدوجہد کا درست فیصلہ کرنے کیلئے معاشرے میں موجود تمام بیانیوں اور نظریات کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔ آج ہمارے ملک میں بہت سی جماعتیں اور لیڈر موجود ہیں۔ سب مفاد پرست اور ملک وقوم کا خون چوسنے والی جونکوں کی مثل ہیں۔ ایک طرف یہ مقامی اشرافیہ کی غلامی کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک دشمن طاقتوں سے ہاتھ ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر سیاست دانوں کی عوامی رابطوں کی ٹیمیں عوام کا دل جیتنے کے لئے اپنے لیڈر کے بارے میں مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کرتی ہیں اور لیڈر روایتی تقاریر میں عوام کا دل پرچانے کے لئے ان کی مانگ، نفسیات اور طلب کے مطابق اپنی تقریروں میں مختلف مذہبی اور اخلاقی بلندیوں کو حوالے کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی اور سماجی طور پر باشعور نوجوان ہی خوب صورت عوامی نقاب کے پیچھے چھپے ان سیاست دانوں کے اصل چہروں کو پہچان سکتے ہیں۔
آج نوجوانوں کو یہ دیکھنا ہو گا کہ جو سیاسی لیڈر ایک خاص ردِ عمل میں اپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہہ رہے ہیں وہ کل اقتدار میں کیسے آئے تھے۔ حکومت سے محرومی نے کہیں انہیں زیادہ اصول پسند اور انقلابی تو نہیں بنادیا۔ اقتدار مل جانے کے بعد ان کو غریب یاد تھے یا بھول گئے تھے۔ اقتدار سے نکتے ہی یہ غریبوں کی محبت میں کیوں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ محض اپنے مفادات کے تضاد کی بنیاد پر کسی ادارے کی چند شخصیات سے اظہار ناراضگی کوئی نظریہ نہیں ہوتا، جب تک کہ اس نظام کے حقیقی کردار کو چیلنج نہ کیا جائے۔ ہماری آج کی سیاسی دنیا میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو معلومات ہم پڑھ رہے ہیں، بغیر شعوری نظریہ رکھے ان پر انحصار تباہ کن ہے۔ لہٰذا ملک، معاشرے اور اس میں موجود جماعتوں، بیانیوں اور نظام کے متعلق ایک شعوری تجزیاتی اندازِ فکر اپنائے بغیر درست قیادت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور جب تک ہم درست سیاسی قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے محب وطن سیاستدان اور عوام دوست حکمران کبھی بھی ہمیں میسر نہیں ہوں گے اور نہ ہی قائد اعظم محمد علی جناح کا قیام پاکستان کا مقصد پورا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button