Editorial

عیدالفطر۔۔۔ خوشیوں کا تہوار

عیدالفطر کی خوشیاں ہم سب کو پھر سے میسر آرہی ہیں۔ ہر سُو خوشیوں کی بہار دکھائی دیتی ہے۔ چہل پہل ہے اور عید منانے کے حوالے سے عوام میں خاصا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔ دعا ہے کہ خوشیوں کا یہ سلسلہ قائم و دائم رہے اور وطن عزیز اور اس میں بسنے والے عوام پر رب کریم کی رحمتیں یوں ہی تاقیامت برستی رہیں۔ عید کو رمضان المبارک میں کی گئی عبادتوں اور نیک کاموں کا انعام قرار دیا جاتا ہے۔ جہان پاکستان فیملی کی جانب سے اہل وطن کو عیدالفطر کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو عیدالفطر کی بے پایاں خوشیاں منانے کا بنیادی درس ایک آفاقی قرآنی پیغام میں ملتا ہے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا کہ پہلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے، اس کی اساس تقویٰ پر رکھی، روزوں کی فضیلت انسانی معاشرے میں ایک وحدت انسانی سے مشروط وہ کامل ترین عبادت ہے، جس میں بندہ پورے مہینے کے روزے اس نیت سے رکھتا ہے کہ اس کی بدنی طہارت، روح کی پاکیزگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرے اور اپنے تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلام کی حقانیت سے مربوط دینی و مذہبی ہدایات کی ہر حکمت کو جو مظاہر فطرت کی تمام چیزوں میں نمایاں کرے۔ روزہ بدن کی زکوٰ بھی ہے اور عید کا ایک تحفہ بھی۔ اہل اسلام رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھوک، پیاس، خواہشات نفسی پر ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رحمتوں، برکتوں، مغفرت اور انعامات کے اس مہینے کا ایک حُسن عیدالفطر بھی ہے، جو رمضان کے اختتام پر اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ عیدالفطر جہاں اللہ رب العزت کی جانب سے رمضان کی محنتوں کا ایک صلہ ہے، وہیں اہل اسلام کے درمیان محبت، خلوص، پیار اور اخوت کے اشتراک کا مظاہرہ بھی ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد کسی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونا اور خوشیوں کو معاشرے کے ہر طبقے تک پھیلانا بھی ہے۔ اسی طرح عیدالفطر کے وسیع تر مقاصد میں ایک باہمی اتحاد و یگانگت سے خوشیوں، رحمتوں اور نعمتوں کے حصول کا متفقہ اظہار بھی ہے۔ عید کی خوشیاں لامتناہی ہیں۔ اس میں غریب اور امیر کی کوئی قید نہیں، ایک مزدور پیشہ بندہ بھی اپنے اہل خانہ کو عید کی خوشیوں کے قابل بناسکتا ہے، وہ بھوک اور غربت، بیماری اور استحصال کے مارے اس نظام میں سسکتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کے جتن کرتا ہے، وہ احساس کم تری کا شکار نہیں رہتا، کسی سے گلہ نہیں کرتا کہ اس کے غربت زدہ بچے محروم جب کہ امیروں کے بچے تعیشات اور ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں، یہ قناعت ایک سماج کے ارتقائی سفر کی ان کہی کہانیوں کا ابتدائیہ ہوتی ہے۔ یہاں ہم قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرانا
چاہیں گے کہ موجودہ مہنگائی کے تناظر میں بعض ایسے بھی ہیں کہ جو عید کی خوشیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ آپ میں سے جو صاحب استطاعت ہیں، وہ اپنے آس پاس ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور اُن کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس موقع پر یہ خیال ضرور رکھا جائے، اُن کی مدد ایسے کریں کہ دل آزاری کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ مہنگائی کے نشتر غریب عوام پر بُری طرح برس رہے ہیں۔ ہر شے کے دام آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ گرانی مافیا نے بھی کم حشر سامانیاں بپا نہیں کیں۔ بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ غربت کی شرح خاصی سرعت سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے اسے سنبھالا دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ چند بڑے اقدامات کیے گئے ہیں، جن کے نتائج برآمد ہورہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گے۔ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن ان سے احسن انداز سے نمٹا جائے تو اس کٹھن صورت حال سے جلد نجات مل سکتی ہے۔ پاکستان کو نوجوان افرادی قوت وافر تعداد میں میسر ہے، جس کا مطمع نظر پاکستان کی سلامتی اور وطن کی قومی یکجہتی ہے۔ یہ نوجوان اپنی شبانہ روز محنتوں سے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، جن کو بلاامتیاز مواقع فراہم کرے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سے حالات میں مزید بہتری دکھائی دے گی۔ ملکی وسائل پر انحصار کی پالیسی پر گامزن رہا جائے۔ پاکستان قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ان وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا گیا تو صورت حال موافق بنائی جاسکتی ہے۔ رواں سال عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ نئی حکومت سنجیدگی سے معاشی بحران کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کو بھی اپنا درست کردار نبھانا چاہیے۔ سیاست میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے سے گریز کیا جائے۔ سیاسی دانش، تدبر اور دُوراندیشی کا مظاہرہ کیا جائے۔ عیدالفطر کے اس پُرمسرت موقع پر دعا ہے کہ رب العزت ملک کے غریب عوام کی مشکلات کا خاتمہ فرمائے، اُن کی زندگیوں کو سہل اور اُن کی تمام دلدر دُور فرمائے۔ پاکستان کو استحکام اور مضبوطی عطا فرمائے۔ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ ملک میں انصاف کا بول بالا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل وطن اور اہلیان اسلام کو عید کی خوشیوں سے مالا مال فرمائے۔ فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و درندگی کا خاتمہ فرمائے۔ اُن کو حقیقی آزادی اور خودمختاری سے سرفراز فرمائے۔ وہ مظلومین پچھلے سات ماہ سے بدترین عذاب اور قہر میں مبتلا ہیں۔ درندہ صفت اسرائیل چونتیس ہزار فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ رب العزت اس ظالم کا خاتمہ اور حماس و فلسطینیوں کو اس پر فتح نصیب فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس عید کو تمام اہل اسلام کے لیے امن، مسرت اور سکون کا باعث بنا دے۔ ( آمین)
بجلی کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ
یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک عزیز میں ہر کچھ دنوں بعد بجلی کی قیمت میں بڑے اضافے دیکھنے میں آتے ہیں، جو غریب عوام کے لیے سوہان روح سے کم کی حیثیت نہیں رکھتے۔ موجودہ ہوش رُبا گرانی میں غریبوں کے لیے دو وقت کی پیٹ بھر روٹی سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں ہر مرتبہ اُن پر برق گرانا کیا مناسب اقدام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ہرگز بھی نہیں کہ غریب عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی کی خاطر اقدامات کرتے ہیں، لیکن یہاں تو اس حوالے سے طویل خاموشی کے سلسلے ہیں۔ مہنگے ذرائع کے مسلسل استعمال کے باعث بجلی روز بروز ہولناک حد تک مہنگی ہورہی ہے۔ خطے میں سب سے مہنگی بجلی پاکستان کے عوام استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ خطے کے دوسرے ممالک بھارت، ایران، چین، بنگلہ دیش و دیگر میں بجلی انتہائی سستی ہے اور وہاں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے اپنی آمدن کا معمولی حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز کے غریب عوام ماہانہ بجلی بل کی ادائیگی کے لیے اکثر اوقات اپنی جمع پونجی تک لُٹاتے نظر آتے ہیں۔ ہر کچھ دن بعد بجلی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ کرکے غریبوں پر تمام تر بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی فیصلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مزید اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نیپرا نے فروری کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مدمیں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4روپے 92 پیسے اضافے کی منظوری دیتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نوٹیفکیشن کے بعد صارفین اپریل کے بلوں میں اضافی ادائیگیاں کریں گے اور اس کا اطلاق کے الیکٹرک کے لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔ پانچ روپے کے قریب بجلی کے فی یونٹ قیمت میں اضافہ سراسر ظلم کے مترادف ہے۔ اس فیصلے کو واپس لیا جانا چاہیے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب تک عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ ڈالا جاتا رہے گا۔ اس سلسلے کو اب متروک ہونا چاہیے۔ دُنیا بھر میں سستی بجلی پیدا ہورہی ہے تو یہاں مہنگی پر اصرار کیوں ہے۔ بہت ہوچکا، اب بجلی کی سستی پیداوار کی جانب سنجیدگی سی قدم بڑھاتے ہوئے مہنگے ذرائع سے نجات پر تمام تر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کی بھٗلائی پوشیدہ ہے۔ بجلی کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) کے منصوبے بنائے جائیں اور انہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر کی فی الفور تعمیر کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ڈیمز کی تعمیر سے ناصرف آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ بجلی کی وافر پیداوار بھی حاصل ہوسکے گی۔ نیک نیتی کے ساتھ اس ضمن میں قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button