ColumnImtiaz Aasi

سانحہ نو مئی کے مجرمان کی رہائی

امتیاز عاصی
ملک کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو افہام وتفہیم سے وطن عزیز کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کے لئے سر جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ انتخابات میں جو ہوا سو ہوا اب آگے چلنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہوتا تو انتخابی اصلاحات کا مسئلہ حل ہوجانے سے فارم 45اور 47جیسا مسئلہ کبھی کھڑا نہیں ہوتا۔ انتخابی ٹریبونل قائم کر دیئے گئے ہیں لہذا الیکشن کی عذرداریوں کا ٹربیلونلز سے ہونے والے فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ حکومت نے سانحہ نو مئی میں سزا یافتہ چند لوگوں کوا ن کی سزائیں مکمل ہونے سے قبل انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہا کر دیا ہے ۔گو سپریم کورٹ کی ہدایت پر سہی لیکن آرمی چیف سید عاصم منیر نے بڑا ہونے کا ثبوت دیا ہے اور سیاسی ورکروں کی سزائیں پوری ہونے سے قبل انہیں رہائی دے دی ہے تاکہ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ عید الفطر کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ ہمارا ملک اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں سیاست دان اپنے اختلافات بھلا کر ملک کی ترقی کے لئے مل جل کر کام کریں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی خلاف ان گنت مقدمات قائم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اسلامی بھائی چارے کا مظاہر ہ کرتے ہوئے انہیں رہا کرکے قومی دھارے میں شریک کرنا چاہیے۔ عید الفطر کے تہوار کے موقع پر آرمی چیف کی طرف سے پی ٹی آئی ورکرز کی رہائی نے ہمیں فتح مکہ کی یاد دلادی جب رسالت مآب ٔ نے اسلام کے دشمنوں کو عام معافی دے کر اسلامی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ یہ نبی رحمتؐ کی تعلمیات کا نتیجہ ہے آج دنیا بھر میں مسلمان اکثریت میں ہیں تاہم افسوس اس بات کا ہے وہ متحد ہونے کی بجائے بکھرے ہوئے ہیں۔ قید وبند کی صعبوتیں برداشت کرنا کوئی آسان بات نہیں اسیری کا ایک ایک لمحہ پہاڑ کی مانند ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے حق تعالیٰ کے پیغمبر حضرت یوسف ٌ نے قید خانے کو جہنم کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔یہ بات درست ہے نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ حکومت اور آرمی چیف سید عاصم منیر کو دل بڑا کرنا چاہیے مائیں بیٹیاں سبھی کی سانجیاں ہوتی ہیں ۔پی ٹی آئی کی ایک ورکر صنم جاویدبیک وقت کئی شہروں میں ہونے والے سانحہ میں کیسے ملوث ہو سکتی ہے ۔ایف آئی آر درج کرنے والوں نے اعلیٰ حکام کی خوشنودی کے لئے اس خاتون پر کئی مقدمات قائم کر دیئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں اور ورکرز کو عدالتوں سے ضمانتوں کے باوجود دوبارہ جیلوں میں بھیج دینا قرین انصاف نہیں۔ حکومت کو جنرل ضیاء الحق کے دور کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ جنرل ضیاء شہید نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا پارٹی رہنمائوں کو کوڑے ماری گئے اور جیلوں میں رکھا۔کیا پیپلز پارٹی ختم ہو گئی پیپلز پارٹی آج بھی راج کر رہی ہے۔سیاسی جماعتوںکاتعلق عوام سے ہوتا ہے جب تک عوام کسی رہنما کو چاہتے ہیں اس وقت تک کسی سیاسی جماعت کا خاتمہ ممکن نہیں۔عمران خان محب وطن تھا تو اس اقتدار میں لایا گیا ورنہ اگر وہ وطن دشمن ہوتا تو اسے اقتدار میں لایا جا سکتا تھا؟ملک کے معاشی حالات دیکھ لیں ہم کدھر جا رہے ہیں قومی اثاثوں کو آئوٹ سورس کیا جا رہا ہے۔پی آئی اے کی خرابی کے ذمہ دار ملک کے عوام نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے جہاں سو ورکرز کی ضرور ت تھی پانچ سو ملازمین رکھے تھے۔قانونی طور پر قتل کے مقدمہ میں کسی ملزم کے کیس کی دو سال تک سماعت نہیں ہوتی تو اسے ضمانت پر رہا کر دیا جاتا تھا۔سانحہ نو مئی میں قتل جیسی سنگین دفعات تو نہیں لگی ہیں ۔یہ درست ہے حساس تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچا یا گیا سانحہ کے سہولت کاروںکا پتہ چلانے کے لئے سپریم کورٹ کے کسی جج سے انکوائری کرا لی جاتی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ایک طرف وطن عزیز دہشت گردی کی لیپٹ میں ہے دوسری طرف سیاسی جماعتیں باہم دست وگریباں ہیں۔سیاسی رہنمائوں میں برداشت تو بالکل نہیں ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے آئے روز بیانات ملکی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔بھارت اور بنگلہ دیش ترقی کرتے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیںہم ہیں جو آئی ایم ایف کے دست نگر ہیں۔عوامی مینڈیٹ کے برعکس پسند و ناپسند کی بنیادوں پر کسی کو اقتدار میںلانا ملکی مسائل کا حل نہیں ۔جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ حکومت اور ذمہ داروں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کو دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہوں ایسے میں لوگوں کو انصاف مل سکتا ہے؟جج صاحبان کو تحفظ ملے بغیر عدلیہ کا تصور لاحاصل ہے۔ آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرنے سے ہمارا ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔حکومت اور ذمہ داروں کو ان عوامل کا پتہ چلانا چاہیے ہمارا ملک کیونکر مقروض سے مقروض تر ہوتا جا رہا ہے۔دنیا کے کسی ملک میں کبھی ہوا کسی نے قرض لے کرمعاٗف کر الیا ہو۔اس خرابی کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے کھربوں روپے کے قرضے معاف کئے ۔قرض معاف کرنے والوں نے ذاتی خزانہ سمجھ کر قرضے معاف کئے ؟اگرچہ قرض معاف کرنے والے بہت سی اس وقت دنیا سے جا چکے ہیںورنہ توریاست کے سب سے بڑے مجرم وہی لوگ تھے جنہوں نے سیاست دانوں کے قرضے معاف کرکے ملک وقوم کو گروی رکھوادیا۔ عوام کا یہی قصور ہے وہ اس ملک کے باشندے ہیں۔ وہ ووٹ کس کو دیتے ہیں منتخب کوئی اور ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ہمارا ملک کیسی ترقی کرسکتا ہے۔ انتخابی دھاندلیوں پر دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے ہم ہیں کہ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button