CM RizwanColumn

لٹیروں میں سے مسیحا کی تلاش

سی ایم رضوا ن
یہ ایک دیرینہ دوست ملک کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کا اظہار سمجھ لیں یا شریف فیملی کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کی تعلق داری کا اظہار کہ گزشتہ دنوں عمرہ کی ادائیگی کے لئے جب چچا، بھتیجی یعنی وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور پنجاب کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز اپنے وفد کے ہمراہ سعودی عرب پہنچے تو ان کو خاص استقبال دیا گیا، شاہی پروٹوکول دیا گیا۔ عمرہ کے دوران مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے اندرونی حصے میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف وزیر اعلیٰ مریم نواز وفد کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے جدہ تشریف لے گئے۔ ان کے ہمراہ اسحاق ڈار، محمد اورنگزیب، خواجہ محمد آصف اور حمزہ شہباز نے بھی یہ سعادات حاصل کیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مغرب کی نماز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ادا کی۔ وفد کے ہمراہ سعودی ولی عہد نے اپنی جانب سے دی گئی دعوتِ افطار میں بھی شرکت کی۔ الصفا پیلس آمد پر بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کا استقبال شایان شان کیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان سب اعزازات اور چونچلوں کے بعد اس غریب پاکستانی کے مسائل حل ہو سکیں گے جس کے گھر کا چولہا عید الفطر کے روز بھی ٹھنڈا ہے۔ جس کو تعلیم، صحت، امن، روزگار، اپنے گھر کی چھت اور دیگر سو طرح کے بنیادی مسائل کا اس طرح سے سامنا ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سعودی ولی عہد کے ساتھ وزیراعظم کی یہ ملاقات اس حوالے سے تو امید افزاء ہے کہ ولی عہد نے مستقبل قریب میں پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ اس سرمایہ کاری کے بعد بھی ان کروڑوں عام پاکستانیوں کے جان لیوا مسائل حل نہیں ہوں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کیونکہ جو حکمران اقتدار ہی کاسہ میں وصول کریں ان کا اپنا اختیار کا کاسہ بھرے گا تو عوام کو کچھ ملے گا۔ تجربات سے ثابت ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمیت ان سب کا کاسہ کبھی بھی نہیں بھرا اور نہ بھر سکے گا۔ اپنے مخالفین کو چور چور کہنے والے بانی پی ٹی آئی کے سابقہ پونے چار سالہ دور کا حساب لگائیں تو سامنے یہی آتا ہے کہ گھڑیاں ملیں تو وہ بھی ہضم، صدقے زکوٰ کے چاول ملے تو وہ بھی آپس میں بانٹ لئے اور کچھ اور ملا تو وہ بھی کھا پی لیا اور ڈھٹائی کی انتہا کہ ان کا فین کلب اب بھی یہی کہہ رہا ہے کہ خان کو کسی چیز کی کمی نہیں اس نے کچھ نہیں لوٹا حالانکہ اس نے بھی لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب محض بہانہ بازی اور اپنے حق آنے والے تھوڑے بہت عوامی مینڈیٹ کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے مگر ملک کی خوش بختی کہ اس کی زبان اسے چھپنے بھی نہیں دے رہی۔
من حیث القوم جب سے یعنی شروع سے ہی ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہے اس لئے جمہوری سیاست پاکستانی معاشرے کا ایک بہت اہم شعبہ بن گیا ہے۔ ویسے تو قوم کی اجتماعی قیادت کرنا ان کے لئے شفاف نظام حکومت قائم کرنا، اس نظام حکومت کا نظم اچھے طریقے سے چلانا اور اجتماعی معاملات میں قوم کی رہنمائی کرنا جمہوری سیاست کہلاتا ہے۔ ایسا سیاسی نظام جس میں قیادت کا اہل اور ایماندار ہونا بنیادی شرط ہو۔ اگر سیاسی قیادت اہلیت اور دیانتداری کے معیار پر پورا نہ اترتی ہو تو چہرے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ شفاف نظام حکومت کا تسلسل بھی معاشی خوش حالی کا ضامن ہوتا ہے مگر ہماری 76سالہ قومی زندگی دو، دو تین، تین سالہ دور کی نیم جمہوری حکومتوں اور کھٹائی کا شکار ادھورے منصوبوں سے بھری پڑی ہے جن سے اب تک صرف بدحالی، بداعتمادی اور سیاسی جنگ وجدل جیسی وبائیں ہی پھوٹی ہیں۔ امن، انصاف اور خوشحالی جیسی منازل محض خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ ایک اچھے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ معاشرتی اکائیوں کے مثبت رویے بھی خاصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ قانون، انصاف اور شعور جیسے معاشرے کے اہم ستونوں کی تعمیر و تشکیل بھی ضروری تقاضوں میں شامل ہیں تبھی جا کر کہیں معاشرے کی بقا بہتر تعلیم، شعور، مثبت سوچ اور اچھائی و برائی کی تمیز میں واضح حد فاصل قائم ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے سے آج تک یکسر محروم چلے آ رہے ہیں جہاں تعمیری روایات اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کا درس دیا جاتا ہو۔ جہاں عہد کی پاسداری کی جاتی ہو جہاں دوسروں کی رائے کا احترام کیا جاتا ہو اور اپنی رائے کو کسی بھی قسم کی رعونت، بدتہذیبی، بدخبری اور بددیانتی سے مبرّا کئے جانے کی پرخلوص کوششیں نظر آتی ہوں مگر افسوس کہ ہمارے یہاں معاملہ ان مثبت معاشرتی تقاضوں کے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں خود غرضی، لالچ، فیک نیوز کے تحت سیاسی دشمنی کو ہوا دینے اور سیاسی انتقام لینے جیسے رویے عام ہیں اور اس ساری مشق میں عوام کے ساتھ ایسا دھوکہ کیا جا رہا ہے کہ جب اس دھوکے کی پرتیں کھلیں گی تو ہم اپنا بہت بڑا قومی نقصان کر چکے ہوں گے۔ اس دھوکہ دہی کی نقد فصل ہم آج بھی معاشرے میں پیدا ہونے والی عدم رواداری اور عدم برداشت کی صورت میں کاٹ رہے ہیں جس نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے جبکہ عدم مساوات، بے انصافی، خود غرضی، قانون شکنی اور فرائض کی عدم ادائیگی جیسے مسائل تو پہلے ہی معاشرتی بگاڑ پیدا کر چکے تھے۔ گو کہ اب بھی ان مجموعی منفی سیاسی رویوں کو درست کر کے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے مثبت اور تعمیری سوچ کی حامل سیاسی قیادت کا فقدان ان مسائل کو اور گمبھیر بنا رہا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس معاشرے کی سیاسی قیادت میں علم و دانش، عقل و شعور اور سیاسی بلوغت کا فقدان ہو وہاں مہذب نسلیں کہاں پروان چڑھیں گی۔
آج ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے عام لوگوں کی سوچ شخصیات اور جماعتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قرآن کی آیات اور شرعی اصولوں کو بھی اپنی پسندیدہ جماعتوں کے حق میں یا سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر ان معاملات میں ہم نے حالات سے سبق نہ سیکھا اور بطور معاشرہ اپنی اجتماعی اصلاح نہ کی تو بعید نہیں کہ ہم قومی وحدت جیسی نعمت سے بھی محروم ہو جائیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ
موجودہ ملکی مسائل میں تعلیمی پسماندگی اور لاعلمی سرفہرست ہیں جبکہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کی کلیدی حیثیت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھایا اس نے ترقی کی منزلوں کو طے کیا ہے اور جو قوم جہالت کا شکار رہی ہے وہ ہمیشہ پس ماندہ رہی ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھاءے جائیں۔ نیز علم و آگاہی کے تمام ذرائع سے آبادی، میونسپل سروسز، صحت، کھیل، تعلیم، نصاب، سائنس و ٹیکنالوجی، مہنگائی، داخلہ و خارجہ پالیسی، معیشت، معاشرت، توانائی، زراعت، پانی، کشمیر، افغانستان، ایران اور سی پیک جیسے موضوعات پر مثبت بحث و مباحثہ وقت کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل میں جدید اور ضروری علوم سیکھنے کا شوق پیدا ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ نوجوانوں کو سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہئے لیکن اس سے پہلے انہیں سیاست سے متعلق علم و شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جلسے جلوسوں میں جا کر تشدد کا حصہ بننے اور کسی سیاستدان کے مکروہ عزائم کا آلہ کار بننے کی بجائے سیاسی آگہی کے لئے مثبت بحث و مباحثے کا کلچر فروغ دیں اور ملک میں ایک ایسی سیاسی قوت پیدا کر سکیں جو خالصتاً ملکی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہو نہ کہ پاور میں آ کر بیرونی ملک دشمن طاقتوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے ملک کا کباڑا کر جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے زیادہ تر نوجوان آئین، سیاست، معاشرت اور معیشت کے رہنما اصولوں سے مکمل آشنا ہوں سنجیدہ سیاسی سوچ کے حامل ہوں اور اس امر کے خوب جاننے والے ہوں کہ جب کوئی سیاسی جماعت انہیں ملک، قوم اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس کے ان بداعمال کا حصہ نہ بنیں۔ جس کی وجہ سے وہ خود تشدد کا شکار ہوتے ہیں یا تشدد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ملک کے آئینی اداروں، سیاسی جماعتوں اور صحافتی اکائیوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ علم و آگہی کو عام کرنے اور معاشرے کو تشدد سے پاک کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تعلیم کے تمام شعبوں میں بھی تحقیق پر بھر پور توجہ کی ضرورت ہے تاکہ جدید علوم سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اسی طرح معاشی، سیاسی و انتظامی معاملات میں درپیش حالات بھی فوری اصلاح کے متقاضی ہیں۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ معیشت دور حاضر کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری کے لئے مضبوط معیشت ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ معاشی استحکام کے لئے کم از کم معیشت سے متعلقہ نکات و ترجیحات پر ملک کی تمام سیاسی قوتوں کا باہمی تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے تمام معاشی اکائیوں اور سرگرمیوں کو رجسٹر تو کیا جائے ان سے معمولی ٹیکس بھی لئے جائیں اس ٹیکس کا دائرہ کار مراعات یافتہ طبقے تک بھی بڑھایا جائے تاکہ قرضوں کا بوجھ کم ہو اور ٹیکس پر انحصار زیادہ ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بدانتظامی، بدعنوانی اور کرپشن ملکی مسائل کی بنیادی وجوہات ہیں۔ دنیا بھر میں کرپشن پکڑنے سے زیادہ کرپشن روکنے پر توجہ دی جاتی ہے کیونکہ کرپشن ہونے کے بعد اس کو پکڑنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کرپشن ہونے سے پہلے اسے روکنا آسان ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کرپشن روکنے کے لئے نظام میں تبدیلی انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح جبکہ تمام پاکستانیوں کو علم ہے کہ تمام جماعتوں کے اکثر ٹکٹ ہولڈر ملک کے لوٹ مار کرنے والے طبقات کے پروردہ ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہر الیکشن میں انہی کرپٹ مافیاز کو ووٹ دے کر ان میں سے کسی ایک کو مسیحا قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ گو کہ موجودہ وزیراعظم حب الوطنی کے ساتھ ملکی معیشت کو پاں پر کھڑا کرنے کی پرخلوص کوشش کر رہے ہیں مگر جب ان کے اتحادی محض سیاست کا ارادہ رکھتے ہوں اور اپوزیشن کسی صورت ملک کو چلنے دینے کی گنجائش نہ دینے کی کوششوں میں مصروف ہوں تو ان حالات میں وزیراعظم کی کوشش بھی قوم کی اسی کوشش کی مثال قرار پائے گی جس کے تحت وہ پچھلے 76سالوں سے لٹیروں میں سے مسیحا ڈھونڈتے کی مشق کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button