Column

مفکر اسلام ڈاکٹر ساجدالرحمٰن کیUKسے صدائے فلسطین

تحریر: راجہ شاہد رشید
امریکہ کے طلبہ یہ بول رہے ہیں کہ جرمنی اور امریکہ ماضی میں اسرائیل کو بے شمار اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں، نہ صرف امریکی بلکہ پورے یورپ کے طلبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ امریکی عوام و طلبہ اپنی حکومت کو دوغلا کہہ رہے ہیں اور غلط کہہ رہے ہیں جبکہ امریکن پولیس اپنے طلبہ پر ڈنڈے برسا رہی ہے، 900سے زائد طلبہ کو آج گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی امریکہ کی یونیورسٹیوں میں احتجاج ختم ہی نہیں ہو رہا بلکہ مزید بھی زور پکڑ رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کر رہے ہیں جہاں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق اوہائیو یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اٹلانٹا کی ایک یونیورسٹی میں دوران احتجاج طالب علم کو پکڑنے کی کوشش کے دوران خاتون پروفیسر کیرولین فوہلن نے پولیس کے درمیان آنے کی کوشش کی ، اس 65سالہ خاتون پروفیسر نے پولیس کو کہا کہ طالب علم سے دور ہو جائو تو پولیس نے اسے زمین پر گرا دیا اور پروفیسر کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے باندھ ڈالے ، وہ پروفیسر بی بی بار بار بولتی رہی کہ میں ایک پروفیسر ہوں تاہم پولیس اہلکاروں نے اس کی ایک نہ سنی ، غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکہ کی پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں اور کئی جگہوں پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے جلن والا کیمیکل اور کرنٹ والی گن کا بھی استعمال کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں شہادتوں کی تعداد 34 ہزار 488ہو گئی ہے ، غزہ اور مغربی کنارے پر گزشتہ 24گھنٹوں میں مزید 27فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے معروف فلسطینی شاعر ڈاکٹر رفعت العرعیر شہید کی بیٹی شیما العرعیر بھی شہید ہو گئی ہے، چار ماہ قبل ان کے والد ڈاکٹر رفعت العرعیر بھی اسی طرح فضائی حملے میں شہید ہو گئے تھے ۔ شیما العرعیر کو الرمل کلینک کے قریب ان کے اپارٹمنٹ میں نشانہ بنایا گیا، ان کے ساتھ ان کے شوہر محمد عبدالعزیز اور دو بچے بھی شہید ہوئے ہیں جن میں دو ماہ کا نوازئیدہ بھی شامل ہے۔ امریکی اور فلسطینی میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے پناہ گزینوں کے گھروں کو نشانہ بنایا ۔ ڈاکٹر رفت العرعیر مرکز اطلاعات فلسطین میں بھی کام کرتے تھے اور وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ مفکر ملت اسلامیہ جناب پروفیسر ڈاکٹر ساجدالرحمٰن مدظلہ العالی پیر صاحب آف بگھار شریف ان دنوں برطانیہ کے تبلیغی دورے پر ہیں اور مختلف میلاد کانفرنسز اور دینی اجتماعات سے خطبات فرما رہے ہیں۔ سکپٹن روڈ کیتھلے UKمیں منعقدہ حضرت خواجہ مولانا محمد یعقوب بگھاروی رح کے سالانہ عرس مبارک کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ امت مسلمہ جب تک ایمان پر پختہ رہی جب تک ایمان کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی زندگی کا سفر طے کرتی رہی تو تب سندھ کے سائل سے بلوچستان بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک سُننے والے کان آپ کے فاتحین کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنا کرتے تھے ، یہ ایمان ہی کی قوت تھی کہ جس نے 313کو فتح و نصرت سے سرفراز فرما دیا تھا ، یہ ایمان کی قوت تھی کہ بارش کی طرح برستے ہوئے ادیان میں محمدؐ کے غلام سرکارٍ مدینہ کے حکم پر دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے تھے اور فتح و نصرت آگے بڑھ کر ان کے قدم چوم رہی تھی لیکن آج ہم مظلوم و مجبور ہیں کبھی اٍس سے بھیک مانگتے ہیں کبھی کس سے بھیک مانگتے ہیں، کبھی ایک دہلیز پہ جا جُھکتے ہیں اور کبھی دوسری دہلیز پہ جا جُھکتے ہیں، رسوائی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی شدید مزمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اتنی بڑی مسلم ممالک کی تعداد ہونے کے باوجود بھی آج فلسطین کا مسلمان مسلمانوں کی طرف دیکھ کر نہیں بلکہ آسمانوں کی طرف دیکھ کر رو رہا ہے کیونکہ کثرت سے ہونے کے باوجود بھی ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہیں ، آپ یقین کیجئے حضرات محترم جو خدا سے ڈرتا ہے وہ پھر مخلوق خدا سے نہیں ڈرتا ، جو خدا سے ڈرتا ہے اس سے مخلوق خدا ڈرتی ہے اور جو خدا سے نہیں ڈرتا پھر وہ کیڑوں مکوڑوں سے بھی ڈرا کرتا ہے ، پھر ہر چیز اسے خوفزدہ کرتی ہے۔ جب تک ہمارے حکمران صرف اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے تھے تو یقین کیجئے لوگ اُن حکمرانوں کا نام لے کر اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ ان الانسان لفی خُسر، انسان گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔ ہم اور ہمارے حکمرانوں نے آج گھاٹے کا ہی سودا کیا ہوا ہے۔ ہم امیر ممالک کو راضی کر رہے ہیں ، کاش ہم ان ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بجائے اپنے اللہ کے نوکر اور وفادار ہو جائیں کیونکہ کامیاب تو وہی لوگ ہیں جو اصحاب ایمان ہیں ۔ یا پھر بقول اقبال کہ :
جو کرنی ہے جہانگیری محمد کی غلامی کر
عرب کا تاج سر پر رکھ خداوند عجم ہو جا
میرے عزیز بچو ! میں دل درد مند کے ساتھ آپ کے باپ کی حیثیت سے یا آپ کے بھائی کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ محمدؐ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں اور پھر دنیا ادھر سے اُدھر بھی ہو جائے تو پھر بھی آپ نے اس طوق کو اپنے گلے سے کبھی بھی نہ اُتارنا کیونکہ :
دامن مصطفیٰ سے جو لٍپٹا یگانہ ہو گیا
جس کے حضور ہو گئے اُس کا زمانہ ہو گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button