Column

سیاسی ڈھٹائی کی معراج

تحریر : سی ایم رضوان
زیادہ دور کی بات نہیں ابھی چند عشرے گزرے ہیں۔ یہی ملک پاکستان تھا۔ اسی ملک کے سیاستدان ہوتے تھے لیکن کبھی بھی کسی سیاسی جماعت نے یہ اعلانیہ نہیں کہا تھا کہ ہم اقتدار یا ڈیل کے لئے فوج سے مذاکرات کریں گے مگر آج ہم نے جیتے جی یہ دیکھ بھی لیا اور سن بھی لیا کہ ایک سیاسی جماعت نے پہلے پولیس پر پٹرول بم چلائے، فوجی گاڑیوں اور حساس تنصیبات کو آگ لگائی، درختوں کو آگ لگائی۔ نو مئی جیسا سانحہ کر کے اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ ملک کی دیگر ساری سیاسی قیادتوں کو چور چور کہا اور خود لوٹ مار کی انتہا کر دی۔ اب سزاں اور احتساب کا دور شروع ہوا ہے تو این آر او اور ڈیل یا ڈھیل کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لئے ڈیل بھی ملک کی سیاسی قیادتوں یا سیاسی حکومت سے نہیں ڈائریکٹ آرمی چیف سے کرنے کے لئے مذاکرات کی فرمائش کر دی ہے حالانکہ بمطابق قانون اور خالص جمہوری روایات کے وہ ایسی خواہش کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی قریب و بعید میں سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے عوام کی جمہوری عمل میں شرکت اور انتخابی عمل کو ایک رسمی کارروائی بنا دیا تھا۔ یہاں تک کہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی سول حکومت وجود میں آ گئی تھی جس کے کرتا دھرتا اسی انداز کو ہی عین جمہوری انداز حکومت قرار دیتے رہے لیکن جب فوجی قیادت نے خود ہی اس حکومت کے بداعمال کا آئینہ اسے دکھایا تو وہ اس فوجی قیادت سے ہی ناراض ہو گئے اور جھوٹ موٹ کے انقلابی بن گئے۔ اب ان کے انقلاب کی ان کے اپنے خیال میں فصل پک کر تیار ہو گئی ہے تو وہ یک طرفہ طور ہر نخرے بھی دکھا رہے ہیں اور گالیاں بھی دے رہے ہیں اور مذاکرات بھی صرف آرمی چیف سے کرنے پر بضد ہیں حالانکہ نہ تو آرمی چیف یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری مطالبہ پورا کرنے کی خواہش اور پوزیشن رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کریں گے۔ یہاں تک کہ موجودہ سول حکومت بھی کسی بھی حوالے سے مجبور یا پریشان نہیں کہ وہ ان سے مذاکرات کرے۔ حقیقت پسندی تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں یا کسی ایسی جماعت کو جو بہت زیادہ عوامی مقبولیت کی دعویدار ہو اس کو مقتدر حلقوں کے بجائے عوام کے ساتھ ڈیل کی بات اور خواہش کرنی چاہئے۔
پاکستان میں گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران سیاسی منظر نامے پر تواتر سے ہونے والی تبدیلیوں نے اس تاثر کی تصدیق کر دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خوف اور اس کی حمایت کے حصول کے خبط میں جکڑی ہوئی ایک سیاسی جماعت نے اپنی کمزوریوں کے سبب عوام کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ پر اکتفا کر کے اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بجائے پہلے الیکشن میں دھاندلی کا رونا رویا۔ اس میں ثبوت نہ دے سکے تو پھر اپنے قائدین کے قتل اور زہر دیئے جانے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔ اس میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے تو پھر آرمی چیف پر ڈائریکٹ الزامات لگا کر ان کا قبر تک پیچھا کرنے کی دھمکیاں بھی دیں اور اب انہی سے مذاکرات کا شوق بھی پورا کرنا چاہتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر مقتدر حلقوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
نو مئی کے پر تشدد احتجاج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری، ان کی جماعت کے دیگر رہنماں اور کارکنوں کے خلاف تا حال جاری سخت ترین کریک ڈائون اور اب ان کی حریف جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت کا قیام اور اس کی پے در پے کامیابیاں چند ایک انتہائی واضح اشارے ہیں کہ اب اس جماعت کی احتجاج، تنقید اور الزامات لگانے والی سیاست چلنے والی نہیں اور ان کی ہنڈیا میں چڑھی دال گلنے والی نہیں، اسی بنیاد پر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اب پی ٹی آئی قیادت مذاکرات اور این آر او کے حصول کی کوشش کرے گی لیکن اس کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ نہ تو سیاسی ہے، نہ اصولی اور نہ ہی جمہوری۔ حالیہ انتخابات 2024سے قبل جس دن نواز شریف کی وطن واپسی ہو گئی تھی اسی دن یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب پاکستان کے لئے خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔ پھر گو کہ ان کی جماعت کو وہ مینڈیٹ نہ ملا جو کہ وہ چاہتے تھے لیکن ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ پھر یہ بھی کہ ابھی حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہیں ہوا کہ ملکی معیشت میں کروڑوں ڈالر شامل ہونے لگے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج کاروبار میں ریکارڈ اضافے کی خبریں چل رہی ہیں لیکن دوسری طرف جوڑ توڑ کی سیاست کے عادی پی ٹی آئی رہنما ابھی بھی نہیں سمجھ رہے کہ اس دور اور گیم کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کے تحت ملک میں کام کرنے والے حکمرانوں کو ناانصافی پر مبنی چند فیصلے دے کر ان کے لئے حکومت کی راہ ہموار کی گئی تھی اور ملک کو اس حال میں پہنچا دیا گیا کہ ڈیفالٹ جیسی تباہی کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کافی مضبوط اور واضح نظر آتا رہا ہے لیکن موجودہ فوجی کمانڈ ایسی کوئی پالیسی یا پروگرام نہیں رکھتی بلکہ سیاسی حمایت اور سیاسی سوچ کے حامل متعدد جرنیل اور افسران محض اس وجہ سے فوج سے نکال دیئے گئے ہیں کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے غیر آئینی جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس حد تک واضح اور سخت پالیسی کی حامل فوجی کمانڈ سے اب مذاکرات کی توقع رکھنا یا تو حماقت قرار دی جا سکتی ہے یا پھر آرٹیکل چھ لگوانے کی دعوت۔ مگر موجودہ سٹیک ہولڈرز کی شرافت اور اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی سے فوائد اٹھانے اور شور ڈالنے والے اب خود آرمی چیف سے مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے لئے صرف عوام کی حمایت کافی نہیں ہے۔ اس لئے لگ بھگ ساری بڑی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی متمنی رہتی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کا عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنے کا نقصان یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آسانی، ڈیل اور غیر جمہوری جدوجہد کی عادی ہو جاتی ہیں اور اپنی پارٹیوں کو گراس روٹ لیول پر منظم کرنے، عوام کے ساتھ درست، باقاعدہ اور موثر رابطہ اور تعلق رکھنے اور منصفانہ طور پر پارٹی الیکشن کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ وہ جماعت جو اپنے انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے اور اپنے اندر اہل قیادت کو منتخب نہ کروانے کی پاداش میں ایک سیاسی جماعت ہی تسلیم نہیں کی جا سکتی وہ ایک طرف پورے ملکی نظام کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے اور دوسری طرف ایک غیر جمہوری ڈیل کی سرعام ضرورت محسوس کروا رہی ہے۔ اب مثال کے طور پر فوج کا کوئی نمائندہ مذاکرات کے لئے ان کے ساتھ میز پر بیٹھ بھی جاتا ہے تو یہ اس سے کیا کہیں گے۔ یہی ناں کہ انہیں مقدمات میں ڈھیل دی جائے ان کی قیادت کو رہا کیا جائے اور انہیں وزارت عظمیٰ دی جائے اور اس سارے عمل میں عوام کو نہ پوچھا جائے کیونکہ ان کے بقول عوام ان کو چاہتے ہیں اور نعوذباللہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کو اسی طرح اقتدار دیا جائی جس طرح 2018میں دیا گیا تھا۔ افسوس کہ پاکستان میں ڈیل کلچر نے اب مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانے اور ان کو انتقام کا نشانہ بنانے کے رجحان کو پروان چڑھایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو محنت اور خالص سیاسی جدوجہد کے بغیر مینج کر کے حکومت دیئے جانے کا عمل ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے، ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں عوامی قوت کا مظاہرہ بھی عموما اس لئے کرتی ہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالا جا سکے کہ وہ ان کے ساتھ ڈیل کر لے۔ اب تو اس سے بھی بات آگے بڑھ گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو گالی دے کر ان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ بینظیر بھٹو جب ملک واپس آئی تھیں تو انہیں سانحہ کار ساز کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن بعد ازاں اب نواز شریف کی آمد پر جو ماحول دیکھا گیا اس کو بغیر سوچے سمجھے ڈیل کہا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ڈیل کلچر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بہت سے سیاست دانوں نے کبھی نہ کبھی مقتدر حلقوں کے کہنے پر اتحاد بنائے، سمجھوتے کیے اور اقتدار میں آئے۔ ڈیل کلچر کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ الیکشن ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے اور الیکشن کا نتیجہ الیکشن سے پہلے ہی سب کو معلوم ہو جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو عوام کی حمایت سے اقتدار میں نہیں آئے گا وہ عوام کے لئے کام کیوں کرے گا وہ اسی کی بات مانے گا جس کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا ہے۔ اگر معیار یہ رکھا جائے تو موجودہ شہباز حکومت کے بارے میں ڈیل کا تاثر فوت ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی کام دیکھ کر تو اب سعودی حکمران بھی انہیں وزیر اعظم آف دی ایکشن قرار دے رہے ہیں لیکن دوسری جانب آرمی چیف سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر کے سیاسی ڈھٹائی کی معراج حاصل کر لی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button