Columnمحمد مبشر انوار

گھوڑوں پر زینیں

محمد مبشر انوار( ریاض)
قارئین کرام! ماضی کی ایک اور تحریر افسردہ دل کے ساتھ آپ کی نذرکر رہاہوں کہ حالات نے چھ برسوں میں کوئی پلٹا نہیں کھایا اور ہم آج بھی مساجد میں قیام الیل ؍ شبینہ میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر،مسلسل رو رو کر التجائیں کر رہے ہیں،فریاد کناں ہیں کہ اے مالک دوجہاں،یا الہ العالمین،مسلمانوں کو عزت و افتخار عطا فرما اور مشرکین کو ذلیل و رسوا کر ،لیکن گزشتہ چھ برسوں سے مسلسل یہ دعائیں،التجائیں رقت آمیز آواز میں نہ صرف حرمین شریفین بلکہ دنیا کے طول و عرض میں مسلسل سنائی دے رہی ہیں مگر نہ غیر مسلموں کی ترقی میںکوئی کمی دکھائی دی ہے اور نہ ہی ان کی بربریت میں کسی قسم کی کوئی کمی آ رہی ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ،مسلمانوں کو مزید پر تعیش ہوتے دیکھ رہے ہیں،قومی وسائل کی لوٹ مار میں،عوام الناس کے حقوق غصب کرنے میں،اپنی ہی عوام کو ذلیل و رسوا کرنے میں ہر طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں،اسلامی شعائر سے متعلق ،ہماری رہنمائی تک تو غیر مسلموں نے لے رکھی ہے ،جس میں بہت حد تک قصور ہمارے ان علماء حضرات کا ہے،جو دین کی بجائے اپنے مذاہب کی تشریح بیان کرنے سے نہیں تھکتے،تو نتیجہ یہی نکلنا ہے بہر کیف قارئین خود موازنہ کر لیں کہ ہم جیسے کتنے ہی حکمرانوں کو اس امر کا احساس دلا چکے ،دلا رہے ہیں لیکن کوئی بہتری نہیں،آپ چہ برس پرانی تحریر پڑھ کر خود نتیجہ اخذ کریں۔
1439ہجری کا رمضان اپنی رحمتیں، برکتیںبکھیرتا ،ہم سے رخصت ہوا۔الحمد للہ ،ثم الحمدللہ کہ اللہ رب العزت نے ایک اور رمضان عطا کیا،ایک اور موقع ہم جیسے گنہگاروں،دنیاداروں کو عطا کیا کہ ہم اللہ کے احکامات کی بجا آوری کر سکیں،اپنے طرز زندگی کو اسکے احکامات کے مطابق ڈھال سکیں،اس کی بندگی کا اقرار کر سکیں( گو کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوامگر اپنی سی کوشش تو کی)،اب یہ اس ذات باری تعلی پر منحصر ہے کہ ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبولیت بخش دے یادنیاداروں،مادہ پرستوں کی ان عبادات کو ہمارے منہ پر دے مارے کہ یہ حق اسی کو حاصل ہے۔ فقط ایک چیز ہے جو حوصلہ بخشتی ہے کہ اللہ تبارک و تعلی فرماتاہے کہ مجھ سے جو گمان رکھو گے مجھے ویسا ہی پائو گے،صرف یہی ایک سہارا،ہم آسیوں کی بخشش کا ہے کہ اس کی ذات اگر قہار و جبار ہے تو غفورو رحیم بھی ہے اور مجھ جیسے گنہگاروں کو اپنے رب سے اس کی رحمت کا آسرا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں بخش دے،ہماری عبادتوں کی نہ تو اسے ضرورت ہے اور نہ ہم حق بندگی ادا کر سکتے ہیں۔ رمضان کی آمد اور بالخصوص آخری عشرہ میں عاشقان رسول ( جنہیں استطاعت بخشی اور جن کی حاضری اپنے اور اپنے حبیب ؐکے در پر لکھ دی) جوق در جوق حرمین کا قصد کرتے ہیں کہ اس ماہ مبارک کی ایک رات ایسی فضیلت والی ہے کہ اس رات کی گئی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ رب العزت کا اس گنہگار پر خصوصی کرم ہے ( جس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں کہ اللہ کی کس کس عنایت کا شکر کروں؟؟) کہ گزشتہ تین سالوں سے ماہ رمضان میں نہ صرف اپنے در پر حاضری کا شرف بخشتا ہے بلکہ رمضان کا آخری عشرہ اپنے حبیبؐ کے روضے پر گزارنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ ان تین سالوں میںدر جبیبؐ پر کیسے کیسے گوہر نایاب ہیں،جو آج کی مادہ پرست دنیا میں دیگر پرکشش مواقع ہونے کے باجود،مدینہ الرسول میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر اسامہ محی الدین ہیںجو سترہ ممالک میںمسلمان خاندانوں،بالخصوص بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت ،کے کنسلٹنٹ ہیں مگرسراپا عجز و انکساری کا پیکر،خوبصورت انداز بیاں،جس سے بیشتر اوقات علم کے بیش قیمت موتی انتہائی سادگی کے ساتھ حاضرین پر لٹاتے نظر آتے ہیں۔ حرم مدنی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ضیوف الرحمن کی خدمت میں مشغول،جیب خاص سے فوری دواؤں کا اہتمام کرتے ہیں کہ زائرین عبادات میں یکسوئی حاصل کر سکیں،میں خود لیگا منٹ (ligament) کا شکار تھا کہ بائیں گھٹنے میں شدید تکلیف تھی،نہ کھڑے ہوئے اس پر پورا وزن ڈال سکتا تھا اور نہ ہی تشہد میں گھٹنا موڑ کر بیٹھ سکتا تھا، ڈاکٹر صاحب کو کیفیت بتائی تو فوری دو گولیاں عنایت کی اور پھر باقی دنوں میں نہ صرف حال احوال پوچھتے بلکہ خود دوائی بھی کھلاتے،جس کے باعث آخری عشرہ سکون سے گزرا۔محترم سجاد،برادرم سعید وسیم،برادرم ایاز جو گزشتہ کئی سالوں سے مانچسٹر سے بارگاہ رسالت ؐمیں باقاعدگی سے حاضری دینے آتے ہیں،برادرم نعمان جو مکہ سے ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں،یوں ہم آٹھ دس دوست حرم مدنی کے جنوبی طرف ( باب بدر) میں برادرم محمد حمد العقیل کے دستر خوان پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بار ایک اور خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ پاکستان سے میرے محترم جناب شہزاد شوکت، سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ،ان کے دوستوں جناب جاوید مغل ( مغل سٹیل) اور جناب جمال سے بھی ملاقات ہوئی کہ یہ اصحاب بھی گزشتہ کئی سالوں سے آخری عشرہ حرم مدنی میں گزارتے ہیں۔ جناب جاوید مغل کو اللہ تبارک و تعلی نے اپنے مہمانوں کی مہمانداری کے لئے بھی منتخب کر رکھا ہے اور ان کے وسیع دستر خوان پر افطاری کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے۔ اللہ اپنے اور اپنے حبیبؐ کے در پر حاضر ہونے والوں کی تمام جائز خواہشات کو پورا کرے اور سب کی حاضری کو قبول فرمائے۔
ذاتی حاجات کے لئے دعائوں کے علاوہ ایک قدر مشترک تقریباً سب پاکستانیوں میں محسوس کی کہ تقریباً سب پاکستانیوں کو پاکستان کے حوالے سے متفکر پایا اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی، اکثریت درد دل سے پاکستان کی سالمیت و حفاظت کے لئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے رہے، اس کی ترقی و خوشحالی اور بہتر قیادت کے لئے التجائیں کرتے رہے۔ لیلتہ القدر کے حوالے سے اس مرتبہ اکثریت کا گمان یہی تھا کہ تئیسویں رات ،لیلتہ القدر کی رات تھی کہ وہ تمام نشانیاں جو لیلتہ القدر کے حوالے سے منسوب ہیں، اس رات نظر آئیںاور اسی شب امام مسجد نبویؐ نے بالخصوص انتہائی گڑگڑا کر،امت محمدی کے گناہوں کی، اللہ کے حضور معافی طلب کی،اسلام اور اہل اسلام کی سر بلندی،اسلام کی عظمت کی دعائیں مانگی۔ ایسی روح پرور ساعتیں،ایسا عظیم اجتماع اور ایسی عاجزی و انکساری،یہ حاصل تھا مسجد نبوی میں حاضری کا مگر دل انتہائی گرفتگی و کرب میں تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام دونوں پستیوں کا شکار ہیں؟اتنے آنسو،سسکیاں،گڑگڑاہٹیں،عاجزی و انکساری،لیلتہ القدر جیسی رات میں عبادت اور دعائیں لیکن دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلسل ہزیمت کا شکار،کیوں؟؟قوانین فطرت اٹل اور حقیقی ہیں،جب تک ا ن پر پورا نہ اترا جائے،ان کی شرائط پوری نہ کی جائیں،ان کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکتے۔ فرزندان توحید ہونے کے باوجود دنیا میں پنپنے اور زورآور بننے کی شرائط پور ی نہیں کی جاتی،تو یہ ممکن نہیں ہے کہ فقط دعائوں کے بل بوتے پر اسلام یا اہل اسلام کو سربلندی حاصل ہو سکے۔ قرآن میں فرمان ہے کہ یہود و نصاری تمھارے دوست نہیں ہو سکتے، تفکر و تدبر کا حکم قرآن میں ہے،نبی اکرمؐ کا فرمان مبارک ہے کہ علم حاصل کروخواہ چین جانا پڑے لیکن آج عاشقان رسول ان تمام احکامات سے دور ہیں۔ آج یہود و نصاری مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کے دوست ہیں جبکہ ان دوستوں نےبھائیوں کے درمیان تفرقہ پھیلا رکھا ہے،جس کو وہ کسی صورت پاٹنے نہیں دیتے،مسلمانوں کی تلواریں ( جدید )اپنے ہی بھائیوں کے خلاف میانوں سے با ہر ہیںاور وہ ایک دوسرے کا بے دریغ خون بہارہے ہیں۔ یہود و نصاری طرفین کے مسلمانوں کو اپنا اسلحہ بیچ کر نہ صرف اس کا ٹیسٹ کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو انتہائی بے رحمی و بے دردی کے ساتھ کم کر رہے ہیں،یہود و نصاری اپنے تئیںمسلمانوں کو یا تو سلائے رکھنا چاہتے ہیں یا آپس میں جوتم پیزاراور خود ہر نئے دن ایک نئی تحقیق اور نئی ایجاد کے ساتھ قلانچیں بھرتے کوسوں آگے جانے کے خواہشمند۔ مسلمانوں پر جدید علوم کے دروازے ،مشتبہ 9؍11،کے بعد سے بند ہیں ،مسلم ریاستوں میں ایسی درسگاہیں نا پید ہیں جو عالمی سطح کے تحقیق کار یا سائنسدان پیدا کر سکیں،باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو جدید علو م سے دور رکھا جا رہا ہے۔ ماسوائے چند ایک مسلمان ممالک کے ،تمام مسلم ممالک اپنی ضروریات زندگی کے اشیاء ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کرتے ہیں،کارپوریٹ کلچر اس پسماندگی کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے اور مسلم ممالک کی معدنیات یا خام مال اونے پونے خرید کر فنشڈ پراڈکٹ مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے،سونے پہ سہاگہ نا اہل اور کرپٹ حکمران ہیں جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ذاتی مفادات کے عوض یہ سہولیات فراہم کرکے اونٹ کی کمر پر تنکا تنکا اکٹھا کرتے جا رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں اس وقت فقط پاکستان ،ترکی یا ملائیشیا ایسے ہیں،جہاں صنعت کے ساتھ ساتھ دفاعی سازو سامان بھی تیار کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باجود یہ ممالک اپنی دفاعی منصوبوں میں کسی نہ کسی حوالے سے غیرمسلم ممالک کے ساتھ شراکت دار ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم ممالک ،جو فقط دعائوں کے طفیل اقوام عالم میں سربلندی کے خواہشمند ہیں، قوانین قدرت کی شرائط پوری کئے بغیر عروج کی منزلیں حاصل کر سکیںکہ اقوام عالم میں عروج ایک طرف تفکر و تدبر و تحقیق کا متقاضی ہے تو دوسری طرف ہمہ وقت گھوڑوں پر زینیں کسے رکھنے سے ممکن ہے، بد قسمتی سے ہم دونوں حوالوں میں ناکام ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button