Column

سوچئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ندیم اختر ندیم
عید کا لفظی مطلب خوشی بیان کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے عید اللہ کی خاص نعمتوں کا اعلان ہے۔رمضان کا مقدس مہینہ مسلمان سارا دن سہولت ہونے کے باوجود کھانے پینے اور دوسرے بہت سے کاموں سے رک جاتے ہیں جو رمضان کے علاوہ باقی سب مہینوں میں کرنے جائز ہیں۔ گرمی سردی، دھوپ چھائوں کوئی عذر نہیں چلتا۔ رب کا حکم ہے ایک مہینے یعنی گنتی کے دن مسلمانوں کو روزے رکھنے ہوں گے۔ بیماروں کے لیے بعد میں گنتی پوری کرنے کی گنجائش ہے لیکن ایسے بیمار یا ضعیف جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کے لیے روزے رکھنے ناممکن ہیں تو انہیں یہ سہولت مہیا کی گئی ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی مسکین، ضرورت مند کے روزے رکھوا دیں۔کسی کو روزہ رکھوانے یا روزہ کھلوانے کا بہت ثواب بیان کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی شان ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ یہ بہت سمجھنے کی بات ہے۔ اسلام کے ماننے والوں کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ عبادت کا حقدار صرف اللہ ہے۔ صرف اللہ کی ہی عبادت کی جاسکتی ہے، صرف اللہ کے سامنے ہی سر جھکایا جاسکتا ہے، صرف اللہ سے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے التجا کی جاسکتی ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جس نے سب جہان پیدا کیے۔ صرف اللہ ہی ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔صرف اللہ ہی ہے جو مرنے کے بعد ہر انسان سے اس دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب لے گا۔
انسان ہر عبادت اللہ کے لیے کرتا ہے۔ پھر ایک مسلمان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب ہر عبادت کے لائق صرف اللہ ہے۔جب ہر عمل کی جزا سزا اللہ ہی دے گا تو پھر خالق کائنات کا یہ کہنا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا اجر دوں گا اس سے کیا مراد ہو سکتا ہے۔ایک نقطہ مجھ کم عقل کے ذہن میں آتا ہے کہ باقی ہر عبادت نظر آتی ہے۔جب کوئی کفر کے اندھیروں سے روشنی کی جھلک پاتا ہے تو شرک چھوڑ کر اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کے آخری نبی ؐ ہونے کی گواہی کا اقرار کرتا ہے۔ کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو مسلمان کہلاتا ہے۔یا کسی مسلمان کے گھر پیدا ہوتا ہے تو اسے بھی ایمان والا ہی سمجھا جاتا ہے۔ایک مسلمان جب شریعت پر عمل کرتا ہے۔نماز پڑھتا ہے،زکوٰۃ دیتا ہے، حج کرتا ہے، صدقہ کرتا ہے۔ جہاد کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ان اعمال کو باقی سب مسلمان دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے مسلمان ایک دوسرے کے نیک اعمال کے گواہ بن رہے ہوتے ہیں۔لیکن روزہ واحد ایسی عبادت ہے جس کا کسی دوسرے انسان کو نہیں پتہ ہوتا ہے کہ کس نے حقیقی معنوں میں روزہ رکھا ہوا ہے اور کون چھپ کے گھر کے اندر بیٹھ کے کھانا کھا رہا ہے،پانی پی رہا ہے۔ یا ازدواجی تعلق قائم کررہا ہے۔روزہ ایسا عمل ہے جو انسان اور رب کے درمیان ہے۔ اور رب ہی جانتا ہے کہ کس نے واقعی روزہ رکھا ہے کس نے اس کی رضا کے لیے خود کو مشقت میں ڈالا ہوا ہے۔ کون ہے جو سارا دن بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور کون ہے جسے بھوک پیاس اور ازدواجی تعلق سے دوری رب کے نزدیک کر رہی ہے۔کون ہے جو روزہ رکھ کے تقوی حاصل کررہا ہے۔یعنی یہ صرف اللہ ہی جانتاہے کہ کس بندے نیروزہ رکھا ہے۔یہ ایک طرح سے بندے کا رب پر پورا یقین بھی ظاہر کرتا ہے۔ایک کمزور عقیدہ مسلمان بھی خود کو کھانے پینے سے روک لیتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔آہا! کیسا یقین ہے۔عام زندگی میں جھوٹ بولنے والے کم تولنے والے،اقربا پروری کرنے والے بھی اللہ کے رب ہونے اور شہہ رگ سے قریب ہونے کا ایمان رکھتے ہیں لیکن پھر بھی دھوکہ کرتے ہیں۔کم تولتے ہیں،نافرمانی کرتے ہیں۔قانون شکنی کرتے ہیں،کمزروں،غریبوں اور بے سہاروں کا حق کھا جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے لیکن عمل اس کے برعکس۔یہ صرف روزے میں ہوتا ہے کہ ہر کوئی ہر طرح سے یقین کرتاہے کہ خدا دیکھ رہا ہے۔اب ہر کوئی رب کی خوشنودی کے لیے روزے رکھ رہا ہوتا ہے۔اس لیے اب رب کا یہ کہنا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا،اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
روزوں کے حکم کے ساتھ یہ بہت خوب صورت بیان ہوا ہے کہ تم سے پہلی امتوں پر بھی روزے فرض تھے اور روزوں کا مقصد تقوی کا حصول ہے۔آج عید کا دن ہے چلیں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ بلکہ ٹھہریں پہلے آئیے کچھ وقت اپنا محاسبہ کریں اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھتے ہیں کہ ایک مہینہ بھوکا پیاس رہنے،قرآن کریم کی تلاوت،نمازوں کی پابندی کرنے اور دوسروں کو افطاری کی دعوت دینے کے بعد آج ہم مسکینوں،غریبوں،مسافروں اور بے سہارو ں کا درد محسوس کر رہے ہیں؟اگر تو ہم عام لوگوں کی مشکلات کو سمجھ چکے ہیں تو جان لیجیے کہ ہم نے روزے رکھنے کا مقصد پا لیا اور اگر شوال کا چاند نظر آتے ہی ہم اپنی دنیا میں مگن ہورہے ہیں تو تھوڑا نہیں بہت سوچئیے کہ رمضان میں سارا دن بھوک،پیاس کے علاوہ اور کیا ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ جبکہ روزوں کا مقصد ہی دوسرے کی بھوک،پیاس اور مجبوریوں کو سمجھنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button