Editorial

مذاکرات کی مشروط پیشکش اور جواب

 

مسلم لیگ نون کے صدر اور وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں کا اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے حکمت عملی اور عمران خان کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش سے متعلق امور پر مشاورت کی گئی اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اجلاس میں متفقہ طور پر موقف اختیار کیاگیا کہ اگر عمران خان سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں تو حکومت مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، عمران خان کا مذاکرات کے ٹیبل پر آنا خوش آئند بات ہے لیکن مذاکرات پیشگی شرط کے بغیر ہوں گے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں معاملہ بگڑنے کے بجائے بہتری کی طرف آئے، ملکی حالات کو بہتر ہونا چاہیے، الیکشن کب ہونا ہے اس حوالے سے سب کچھ واضح ہے، اگر عمران خان کی خواہش ہے کہ اسمبلیاں توڑیں تو خواہش پوری کرلیں ان صوبوں میں الیکشن ہوجائیں گے۔مسلم لیگ نون کا اجلاس چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کی ایک روز قبل حکومت کو مشروط مذاکرات کی پیش کش پر غور کے لیے ہوا تھا جس میں انہوں نے حکومت کے سامنے دو راستے کھولے تھے، حکومت عام انتخابات کی تاریخ دے ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، چونکہ عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سے اُن کی اسمبلیاں توڑنے کے لیے دستخط شدہ سمریاں لے چکے ہیں پس اب انہیں اسمبلیاں توڑنے میں کوئی دشواری نہیں دوسری طرف حکمران جماعت نے بھی مشروط پیشکش کو مسترد کردیاہے لہٰذا معاملہ بالکل صاف ہے کہ اب آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، مگر اتنا ہی نہیں عمران خان کا تازہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ اسی ماہ اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کی طرف جائیں گے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے بھی واضح کیا ہے کہ مذاکرات کا حتمی فیصلہ پی ڈی ایم قیادت کرے گی اور واضح ہے کہ پی ڈی قیادت قبل ازوقت انتخابات کے انعقاد کے مطالبے کو ہمیشہ سے مسترد کرتی آئی ہے یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کو لانگ مارچ سمیت دوسرے دبائو کا سامنا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت اجلاس میں عمران خان کے مشروط مطالبے کو یکسر مسترد کردیاگیا ہے لیکن توقع کی جاسکتی ہے کہ عمران خان کی پیش کش پر حکمران جماعت اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی مشاورت کرے گی اور پھر حتمی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی مشروط پیش کش کو قومی اخبارات میں شہ سرخیوںکے طور پر لیاگیا کیونکہ سبھی نے یہی سمجھا تھاکہ اب سیاسی قیادت تنائو کو کم کرے گی اور کئی ماہ سے جاری غیر یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہوگا مگر دوسرے ہی روز حکمران جماعت نے اِس پیشکش کو مسترد کردیا ہے لہٰذا اب وفاق میں اتحادی جماعتیں بھی یہی موقف اختیار کرتی ہیں تو پھر دونوں صوبائی اسمبلیوں کا تحلیل ہونا اٹل ہے، پس بارہا یہی جاننے کی ضرورت
پیش آتی ہے کہ ملکی حالات، سیاسی تنائو، بے یقینی اور عوام کے مہنگائی سمیت دیگر دیرینہ مسائل میں بے حد اضافہ جو عام پاکستانی اور ہم محسوس کرتے ہیں کیا سیاسی قیادت بھی اِن کا ادراک کررہی ہے یا انہیں ایسا بتایا جارہا ہے کہ ملک میں پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد سے مسلسل شادیانے بجائے جارہے ہیں اورلوگ خوشی سے نہال ہورہے ہیں۔ عام پاکستانی بھی یہی محسوس کرتا ہےکہ موجودہ ملکی حالات قطعی اطمینان بخش نہیں ہیں کیونکہ سیاسی عدم استحکام نے نیچے تک سبھی کو شدید ترین متاثر کیاہے، بظاہر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اِن مسائل میں کمی تو نہیںکرسکی لیکن معاشی اصلاحات کے نام پر اِن کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ ضرور کیا ہے یہی وجہ ہےکہ عامۃ الناس دونوںادوار اور دونوں کےوعدوں کا موازنہ کررہےہیں۔ اِس میں قطعی دورائے نہیں کہ سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں کس کاطوطی بول رہاہے، مگر واضح رہنا چاہیے کہ اِس کی وجہ سیاست دانوں کی اپنی حکمت عملی ہے، کیونکہ عوام بظاہر پچھلی حکومت سے نالاں تھے کہ وعدے بھی ایفا نہ کیے اور مہنگائی بھی کردی گئی اگرچہ سابق حکمران اِس کو عالمی کساد بازاری اورکروناوائرس سے جوڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں محسوس کیا جارہا تھا کہ 2023کے عام انتخابات میں عمران خانکو شدید ترین مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنےمنشور پر عمل درآمد میں کامیاب نہ ہوسکے، مگر جب اتحادی حکومت معاشی اصلاحات اور عوام کو ریلیف دلانے کے سہانے خواب کا ٹوکرا سجاکر آئی تو توقع کی جارہی تھی کہ عام آدمی کودو وقت کی روٹی کا حصول آسان ہوگا مگر حکومت کی تبدیلی نے عمران خان کے نیچے گرتے گراف کو مزید بلند کردیا جو بلاشبہ ناقابل یقین اور ناقابل توقع تھا، اتحادی جلد انتخابات کے انعقاد سے کیوں گریزاں ہے اور اتحادی کیوں بار بار یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے ملک کے لیے سیاسی نقصان اٹھایاہے، اس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ حکومت کے اتحادیوںکو بخوبی علم ہے کہ عوام میں ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ مہنگائی میں اضافہ اور معاشی اصلاحات کے نام پر تمام تر معاشی بوجھ عوام پر منتقل کرنا ہے مگر یہ امر بھی اپنی جگہ موجودہے کہ اِس دوران میں اتحادیوں نے اپنے کیسز ختم کرانے اوراپنے آپ کو قانون کی پکڑ سے دور کرنے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں وہ سبھی عوام کے سامنے آچکے ہیں اور بظاہر وفاقی حکومت کے پاس جادو کی ایسی چھڑی نہیں جس کے ذریعے عام انتخابات کے لیے عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کیا جاسکے، قومی خزانہ خالی ہے اور دونوں بڑے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا پر وفاقی حکومت کا اختیار نہیںہے کہ مرکز نہ سہی صوبے سے عوام کو ریلیف دے دیا جائے پس انتخابات کل ہوں یا اگلے سال کے آخر میں یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اتحادی حکومت کو بہرصورت مشکلات کا سامناکرنا ہی پڑے گا، بہرکیف دونوں اطراف اپنے اپنے موقف پر قائم پر ہیں جس کا بالآخر نتیجہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں نکلنے کا خدشہ ہے چونکہ مل بیٹھنے کی سیاست کا فقدان ہی نظر نہیں آرہا بلکہ اِس کے لیے ہر کوشش بھی مسترد ہورہی ہے لہٰذاداخلی حالات کو دیکھتے ہوئے تشویش برقراررہنا فطری ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ معاملات کی بہتری کے لیے کسی جانب سے سنجیدہ کوششیں عمل میں آئیں اور اِن کے نتیجے میںسیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button