ColumnKashif Bashir Khan

سیاسی معجزہ نہیں ہونے والا! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد سیاسی میدان میں استحکام آنے کی امید پیدا ہو چکی ہے اور پاکستان میں جو سیاسی بے چینی اور افراتفری پچھلے آٹھ ماہ سے چل رہی تھی اس میں کچھ کمی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان نے بھی وفاقی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دے کر سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان کی دو بڑی اسمبلیاں توڑنے سے بیمار معیشت کے بدترین شکار پاکستان میں جو انتشار پھیل سکتا ہے اس کا اندازہ اتحادی حکومت کو بخوبی ہے اور پچھلے آٹھ ماہ سے جو کچھ پاکستان کے عوام سے ہوا اور اس کی جو قیمت انہیں ادا کرنی پڑنی ہے وہ بھی اتحادی حکومت کو بخوبی معلوم ہے۔قیمت سے مراد انتخابات میں جو کچھ سیاست دان کماتے ہیں وہ ہی ان کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا کرتا ہے۔ انتخابات سے ہمیشہ و ہی سیاسی لیڈرشپ بھاگتی ہے جسے یقین ہو کہ انتخابات میں ان کو عوام کی پزیرائی،حمایت اور ووٹ نہیں ملنے والے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاستدان اقتدار حاصل کرنے کیلئے عوام سے ایسے خوشنما وعدے کرتے ہیں جن کو کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا اور پھر جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو بہت جلد غیر مقبول ہو جاتے ہیں۔ماضی میں زیادہ پیچھے نہیں جاتے1988 اور اس کے بعد بننے والی تمام حکومتوں کی کارکردگی اور انتخابات سے قبل ان کے عوام سے کئے ہوئے وعدوں پر نظر دوڑائیں تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عوام کو ہمیشہ اپنے اقتدار کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا اور پھر اقتدار میں آ کر عوام کو فراموش کر دیا گیا، اس کی وجہ صرف ہمارے نظام کی ناکامی اور احتساب کی ناکامی ہے۔سیاست دانوں کے بیانات سنیں تو ان میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کےعلاوہ ہمیں کچھ نہیں ملتا۔جمہوریت کی اصل بنیاد تو عوام کی فلاح
ہے جو ہمیں پاکستان میں مختلف ادوار میں قائم جمہوریتوں میں مفقود نظر آتی ہے۔گویا پاکستان میں جمہوریت کو صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد کم و بیش تمام ہی حکمران جمہوریت کی تعریف پڑھنے کی تکلیف بھی گوارہ نہیں کرتے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست جو دراصل عام کی خدمت کہلائی جاتی ہے کو گنے چنے خاندانوں اور اشخاص نے اپنی جاگیر بنا رکھا ہے اور سیاست میں سے عوام کو کسی بھی ریاست کا بنیادی عنصر ہوا کرتے ہیں انہیں امور ریاست اور سیاست سے بے دخل کر کے صرف اور صرف نعرے لگانے کیلئے استعمال کرنے کی روش اپنا رکھی ہے۔مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے جس قسم کی غلیظ زبان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی روش آج کل اپنائی ہوئی ہے اس نے ہمارے معاشرے کے فیبرک کو تباہ و برباد کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو بھی زبان و بند کے احترام سے عاری کرنا شروع کر دیا ہوا ہے۔ مجھے افسوس اور شدید ترین اعتراض ہے کہ ہمارا وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات(مخصوص نشست پر پارلیمنٹ پہنچنے والی)جس قسم کا انداز تخاطب اور زبان عمران خان کیلئے استعمال کرتے ہیں اس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرے سے احترام،شائستگی اور تمیز کا
عنصر ختم کر دیا ہے۔پاکستان کی سیاست میں یہ بدتمیزیاںنئی نہیں،ان کابھرپور آغاز تو جنرل ضیاالحق کی ہلاکت کے بعد اس وقت ہی شروع ہو گیا تھا جب اس وقت کی مقبول عام سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بھرپور گند پر مبنی زبان اور اقدامات کئے گئے۔یہ ملک میں مصنوعی سیاسی رہنماؤں کو متعارف کروانے اور انہیں عوامی حمایت کی حامل سیاسی قیادت کی جگہ ملک پر مسلط کرنے کا ایک ایسی قبیح قدم تھا جس نے آج بھی ہمارے معاشرے اور سیاست کو آلودہ ترین کر رکھا ہے کہ جیسے کسی وقت میں پاکستانی عوام کی اکثریت پنجابی فلمیں اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے تھے آج اسی طرح ان سیاستدانوں کے بیانات بھی سن کر ششدر رہ جاتے ہیں بلکہ شرمسار ہوتے ہیں ۔آج جنرل ضیاءالحق کی ہلاکت کے بعد جس قسم کی گالم گلوچ اور الزامات کی غلیظ سیاست کا آغاز کیا گیا تھا وہ بدقسمتی سے اتنی پھیل چکی ہے کہ کبھی کبھی تو سیاست دانوں کے انداز تخاطب اور بیانات سن کر ایسا لگتا ہے کہ ہم لاہور کی کسی ایسی پرانی گلی کے نوجوانوں کی زبان سن رہے ہیں جن کا تعلیم،تربیت اور اخلاقیات سے کوئی تعلق کبھی رہا ہی نہیں۔ سیاست میں یہ کڑواہٹ تباہ کن ہے اور ہوس اقتدار کے حامل ان سیاست دانوں کا شیوہ ہے جو اقتدار میں صرف اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے آتے ہیں اور سیاست و جمہوریت کے سب سے اہم اور بنیادی جز و عنصر عوام سے ان کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔
گزشتہ شب ہی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے پارٹی ورکرز ترجمان اور تمام عہدے داروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ کسی بھی فورم پر مسلح افواج اور اس کی قیادت بارے کسی بھی قسم کا بیان نہ دیں۔یہ احکامات خوش آئند ہیں۔پاکستان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار وہ تمام ہی حلقے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر کام کیا جس کا خمیازہ صرف اور صرف پاکستان کے عوام کو ہمیشہ اٹھانا پڑا،لیکن پاکستان میں حقیقی نمائندہ حکومت (جو آئین و قانون کی حکمرانی نافذ کرسکے)کی عدم موجودگی ہی پاکستان کے موجودہ بدترین سیاسی ومعاشی حالات کی اصل وجہ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزراء اعلیٰ کی جانب سے عمران خان کو دونوں اسمبلیوں کی برخاستگی کی سمریوں پر دستخط کر کے حوالے کرنے کی اطلاعات ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر اتحادی حکومت کی بڑھکوں کے باوجود ضمنی انتخابات کی بجائے عام انتخابات کروانا ہی پڑیں گے کہ روس کی جانب سے اتحادی حکومت کو تیل اور گیس کی سستے داموں فراہمی سے انکار کی خبریں ہیں اور عالمی منڈی میں پٹرولیم سستا ہونے کے باوجود عوام نہ صرف مہنگا ترین پٹرول و ڈیزل خریدنے پر مجبور ہیں اور سردی شروع ہوتے ہی قدرتی گیس ناپید ہو چکی۔ادویات کا خام مال بدترین حکومتی امپورٹ پالیسی(بینکوں کا ایل سی کھولنے سے انکار) کی وجہ سے ادویات کا بحران اور ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال نہایت خطرناک منظر پیش کر رہی ہے اور ایسے میں اقلیتی اتحادی حکومت کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور ملک کی اقتصادی حالت کی بہتری کی جانب واحد قدم یعنی نئے انتخابات سے بھاگنا اس ملک کو سنگین اقتصادی،سیاسی اور دفاعی خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔2022 ختم ہو رہا ہے اور جو حکومت پچھلے آٹھ ماہ میں عوام کی بہتری کیلئے اقدامات نہیں کر سکی وہ اگلے چند ماہ میں بھی کچھ نہیں کر پائے گی کہ 2023 تو انتخابات کا سال ہے اور حکومت چاہ کر بھی اگست سے آگے نہیں جا سکتی اور روس سے تیل اور گیس لینے کی آخری کوشش حکومت کر چکی(جو عمران حکومت کا منصوبہ تھا)لیکن اتحادی حکومت جس پر امپورٹڈ اور امریکہ نواز ہونے کے مبینہ الزامات ہیں کو روس سے تیل و گیس نہیں ملا کیونکہ پاکستان کو روس کی جانب سے پاکستان کو تیل و گیس سستے داموں فراہم کرنا آزاد خارجہ پالیسی اور امریکی تسلط و ڈکٹیشن سے آزادی سے مشروط ہے۔بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ جس بند گلی میں اتحادی حکومت نے پاکستان کے عوام کو پچھلے آٹھ ماہ میں پہنچا دیا ہے اس کے بعد ان کا مزید اقتدار سے چپکے رہنا پاکستان کی سالمیت کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ثابت ہو گا اس لئے مذاکرات کی جو پیش کش عمران خان نے اتحادیوں کو کی ہے اس کے بعد تحریک انصاف کے فواد چودھری کے ساتھ مل بیٹھ کر انتخابات کی تاریخ دینا ہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہے۔اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ نون لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند ولی خان ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی گزشتہ آٹھ ماہ میں سیاسی طور پر عوامی حمایت سے بری طرح محروم ہو چکے اور عمران خان اپنے دور حکومت کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ان اتحادیوں کیلئے ایک ایسا دیو قامت پہاڑ بن کر سامنے آئے جو کم از کم اگلے انتخابات میں تو تمام اتحادی سیاسی جماعتوں سے سر ہونا ناممکن دکھائی دے رہا۔شہباز سرکار کو شدیدعوامی رد عمل سے بچنے کیلئے فوری تحریک انصاف سے مذاکرات کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے کہ انتخابات کی تاریخ میں دو تین ماہ کے فرق سے اب ان کے حق میں کوئی سیاسی معجزہ نہیں رونماہونے والا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button