CM RizwanColumn

ڈیفالٹ کے خطرات ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

مقبول ترین اپوزیشن رہنما عمران خان نے ایک بار پھر ملک کو معاشی مصائب درپیش ہونے اور ڈیفالٹ تک کے خطرات کا عندیہ دیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو دسمبر کی پانچ تاریخ کو ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈز کی ادائیگی کرنا ہے جو پانچ سال پہلے بین الاقوامی مارکیٹ سے قرض اٹھانے کیلئے جاری کیا گیا تھا۔ قرض کی ادائیگی کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ ہی عمران خان سمیت بعض سیاسی قائدین اور معاشی ماہرین کی جانب سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی قیاس آرائیاں بھی کی گئیں۔ پاکستان میں مالیاتی امور سے متعلق ریسرچ ہاؤسز اور افراد کی جانب سے سی ڈی ایس کے بڑھنے کو خطرناک قرار دیا گیا اور پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیاتاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو مسترد کیا گیا۔ اسی تناظر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں ان خبروں کو مسترد کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کے سی ڈی ایس میںبے تحاشا اضافے کی پیش رفت کے بعد جاپانی بینک نومارا کی جانب سے پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کی رپورٹ سامنے آئی اور بینک کی جانب سے پاکستان کو ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جو اس وقت شدید کرنسی بحران سے دوچار ہیں۔ سی ڈی ایس میں ہونے والے اضافے اور پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کے بارے میں پاکستان کے معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین تبصرہ کرتے ہیں کہ ملک کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور معاشی حالات تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔
تاہم بعض حکومت نواز ماہرین اگلے مہینے ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کے قرضے کی ادائیگی پر ڈیفالٹ کے امکان کو مسترد کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بری خبر بھی دے رہے ہیں کہ اس ادائیگی کے بعد مزید قرضے کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ کیونکہ ملک کو اس وقت کہیں سے قابل ذکر مالی امداد یا قرض نہیں مل پا رہا جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان اور خطرے کے بارے میں خبریں اس وقت ابھریں جب بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے بانڈز پر سی ڈی ایس بہت زیادہ بڑھا۔ سی ڈی ایس دراصل بانڈز پر انشورنس پریمیئم ہوتا ہے تاکہ ان بانڈز میں سرمایہ کاری کو انشورنس کورحاصل ہو کہ ان بانڈز پر ڈیفالٹ کی صورت میں سرمایہ کاروں کو اپنی رقم واپس مل جائے۔ واضح رہے کہ اس سال کے شروع میں سی ڈی ایس کی شرح چار سے پانچ فیصد تھی جو گزشتہ چند دن میں نوے فیصد سے اوپر چلی گئی۔ پہلے یہ شرح عمومی طور پر چار سے پانچ فیصد ہوتی تھی تاہم کچھ مہینوں سے اس میں اضافہ ظاہر ہونا شروع ہوا۔ کیونکہ پاکستان نے اگلے مہینے ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی کرنا ہے اس لئے سی ڈی ایس میں اضافے کی خبروں نے ابھرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات ہیں۔ ظاہر ہے معاشی حالات خراب ہیں اسی لئے ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ پھر یہ کہ ایک ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی کے بعد سی ڈی ایس کی شرح میں اضافے نے ایسی خبروں کو مزید بڑھا دیا تھا۔ اس حوالے سے وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں اور پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی دسمبر میں ایک ارب ڈالر کے بانڈ کی ادائیگی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان اس ادائیگی کے بعد بھی دیوالیہ نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں بعض معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے مہینے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی تو پاکستان کر لے گا تاہم اس کے بعد کی صورتحال بہت خطرناک نظر آ رہی ہے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوئی ہے اور ملک کو باہر سے ڈالر بھی نہیں مل رہے جس کی وجہ سے حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے فوری طور پر ڈیفالٹ ہونے کا تو خطرہ نہیں تاہم آنے والے مہینوں میں اس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ ملک کو کہیں سے کوئی قابل ذکر فنڈ نہیں مل رہے جو ہماری بیرونی ادائیگیوں میں توازن پیدا کر سکیں، بعض ماہرین نے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان کو مسترد کیا اور دلیل یہ
دی ہے کہ ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ پاکستان آسانی سے کر لے گا اور اگلی ادائیگی میں ابھی کافی وقت ہے کہ یہ خالصتاً ایک تکنیکی معاملہ ہے اور اسے کسی طور پر دیوالیہ ہونے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ جب کہ سی ڈی ایس تو بڑھ گیا، جس کی وجہ سے ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ پاکستان اپنی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے تاہم فوری طور پر اگلے مہینے والی پیمنٹ پر ایسا خطرہ موجود ہے۔ جاپانی بینک ’نومارا‘ کی جانب سے پاکستان کو دنیا کے ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جو اس وقت کرنسی کے خطرناک بحران سے دوچار ہیں۔ان ملکوں میں رومانیہ، مصر، سری لنکا، ترکی، چیک ری پبلک، ہنگری اور پاکستان شامل ہیں۔ جاپانی بینک کی جانب سے کی جانے والی مشق کے مطابق اس کیلئے ایک ملک کے زرمبادلہ ذخائر، ایکسچینج ریٹ، مالی حالت اور شرح سود کو بنیاد بنایا گیا۔
بینک کے مطابق سو سے زیادہ سکور کا مطلب ہے کہ ایک ملک کو 64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا ہے اور پاکستان کا اس میں سکور 120 رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جن ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی کرنسی اس وقت امریکی ڈالر کے سامنے سوا دو سو کے قریب پر ٹریڈ کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 13 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہیں اور مرکزی بینک کے پاس آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم ذخائر رہ گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں کرنسی بحران کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ ملک میں اس وقت ڈالر کی قلت ہے۔ ملکی درآمدات بہت زیادہ ہیں جبکہ برآمدات سکڑ رہی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی تجارت کے ذریعے زیادہ ڈالر باہر جار ہے ہیں اور کم ڈالر ملک میں آرہے ہیں۔ اس کا منفی اثر پاکستان کے ایکس چینج ریٹ پر بھی پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو درپیش شدید کرنسی بحران اور اس کے عام پاکستانی پر اثرات کا عام آدمی پر بہت زیادہ منفی اثر ہو گا علاوہ ازیں کرنسی بحران کی وجہ سے جب روپے کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس کا اثر آمدن اور بچت پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک پاکستانی کی آمدن اور بچت روپے میں ہوتی ہے اور جب روپے کی قیمت گرتی ہے تو لازمی طور پر آمدن میں کمی واقع ہوتی ہے اور بچت بھی سکڑ جاتی ہے۔ اسی طرح کرنسی بحران ایک عام پاکستانی کیلئے مزید مہنگائی بھی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کیلئے درآمدات پر انحصار کرتا ہے اور اس کیلئے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہنگا ڈالر ان درآمدات کو مہنگا کرے گا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام شہری کیلئے تیل اور غذائی چیزیں مزید مہنگی ہوں گی اور اگر یہ کرنسی بحران جاری رہتا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 250 روپے سے اوپر چلی جاتی ہے تو اس سے مہنگائی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔
عمران خان کے بیان کردہ خدشات اس حد تک تو درست ہیں کہ ملکی معیشت ایک سخت دور سے گزر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کے معاملے میں بھی معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔ صورت حال گمبھیر ضرور ہے مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بار بار کی تسلیوں اور حکومتی اداروں کے اطمینان سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورت حال اللہ نہ کرے ڈیفالٹ کی طرف نہیں جائے گی۔ البتہ سیاسی مفاد کیلئے حکومت مخالف شخصیات کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button