Column

وہ پوچھ کر کیوں چلے گا؟

تحریر : سیدہ عنبرین
پتلی تماشے سے شروع ہونے والے تخلیقی شو کی انتہا پاکستان ٹیلی ویژن کا مشہور شو ’’ کلیاں‘‘ تھا جس کے روح رواں فاروق قیصر تھے۔ انکل سر گم اور ماسی مصیبتے اس کے دو دلچسپ اور شہرہ آفاق کردار تھے، مشاہدے میں آتا ہے ہر خاندان، معاشرے ، ملک اور اس کے اہم اداروں میں کہیں نہ کہیں کئی انکل سرگم اور ماسی مصیبتے ضرور ہوتے ہیں جو اہم کام سرانجام دیتے ہیں ایسے کام جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
ایک سیاسی انکل سرگم کے ملک کے بڑے ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو کے بڑے چرچے ہیں اس انٹرویو کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا تھا ورنہ وہ اتنی اہم شخصیت کبھی نہ تھے کہ چینل کے قیمتی وقت کو ضائع کیا جاتا، اس انٹرویو کا مقصد سیاسی انکل سرگم کے باس کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا انہیں ماضی ہونے سے بچانا اور اس تاثر کو مضبوط کرنا تھا کہ وہ منظر سے ہٹ کر بھی ماضی نہیں ہوئے۔ انکل سرگم کے باس نے اپنے سیکنڈ ہوم سے پاکستان آنے کا قصد کیا تو سیاسی حالات کو ان کی مرضی کے مطابق تبدیل کیا جا چکا تھا۔ بتایا گیا کہ ان کی طبیعت مکمل طور پر بحال نہیں ہے لیکن درد دل کی بجائے اب ان کے دل میں ملک و قوم کا درد یک لخت جاگ اٹھا ہے ان کے خیال کے مطابق ملک کی تقدیر کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے اسے ساحل تک پہنچانے کا ہنر صرف انہیں کے ہاتھ میں ہے پس وہ آ رہے ہیں وہ آئیں گے یہ عظیم کارنامہ انجام دیں گے۔
کئی روز تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ وہ ملک کے کس ایئر پورٹ کو اپنی قدم بوسی کا اعزاز بخشیں گے، لاہور آتے ہیں تو کچھ خاص اداروں کی ٹیمیں سٹیل کے کھنکھاتے پھول ہاتھوں میں اٹھائے ان کے استقبال کیلئے موجود ہو نگی۔ انہیں روکا جاتا ہے یا گرفتاری کی اجازت نہیں دی جاتی تو طے شدہ کھیل کھل جانے کا احتمال تھا، لاہور اترتے تو ایک عظم الشان اور ریکارڈ توڑ ہجوم کی اشد ضرورت تھی جو اکٹھا کرنا مشکل نظر آیا، کیونکہ اس سے قبل یہ تجربہ کیا جا چکا تھا جو ناکام رہا تھا لہذا فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد اتریں سیدھے پہلے سے منتظر اندھے بلکہ ان کیلئے بنائے گئے گونگے اور بہرے قانون کی گود میں پناہ لیں پھر ضمانتوں کے پروانے لیکر قانون کی بالادستی ثابت کر کے ہر قسم کا کھیل کھیلنے کی آزادی حاصل کریں۔ پہلا ایکٹ سکرپٹ کے مطابق ختم ہوا تو دوسرا ایکٹ شروع ہوا جس کے اہم ترین مکالمے تھے ہمیں دو تہائی اکثریت دو الیکشن مہم کے دوران اندازہ ہوا کہ دو تہائی اکثریت اب صرف خواب میں مل سکتی ہے ۔ ہر جلسے ہر جلوس میں نعرے لگوائے گے کہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کیلئے پہنچ چکے ہیں۔ جان پر کھیل کر کھیل کا حصہ بن رہے ہیں لہذا اب پاکستان کو نواز دو، تمام تدبریں الٹی ہو گئیں۔ سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی وزارت عظمیٰ ہاتھ سے کیا نکلی عوام کے دل سے بھی دیس نکالا مل گیا، خیال کیا جا رہا تھا کہ اپنے چھوٹے بھائی کو ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ بطور تحفہ دیں گے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آتا، دوسرا خیال یہ تھا کہ بھائی کی بجائے یہ نسخہ کیمیا شاید اپنی لخت جگر کے حوالے کریں گے تاکہ وہ پہلے پنجاب کا تھانہ کلچر بدلے پھر ا یک نئی موٹر وے بنائے اور آخر میں ایک نیا ایٹم بنا کر وزارت عظمیٰ کی حق دار قرار پائے۔ ایک ماہ کے بعد آج اندازہ ہو رہا ہے اس خاکے میں بھی رنگ بھرنے کیلئے جو صلاحیت درکار ہے وہ سرے سے موجود ہی نہیں، چیف منسٹری بھی پانچ سال میں بچ گئی تو یہ بڑا کارنامہ ہو گا۔ انداز کار اور رفتار کار دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بیل منڈھے بھی نہ چڑھ سکے گی۔ سوکھ کر گر جائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا خواب آسماں سے گرا ہے اسے کھجور میں اٹکنے کی جگہ بھی نہیں مل سکی۔
انکل سرگم نے حسب ہدایت یہ بتایا کہ انہیں ایک ون ٹو ون ملاقات میں راز دارانہ بتایا گیا کہ نواز شریف صاحب چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے اگر ایسا تھا تو پھر الیکشن مہم کے دوران پھیلایا گیا تاثر اور الیکشن کی رات لکھی ہوئی وکٹری سپیچ کرنے کیلئے ماڈل ٹائون آمد کس سلسلے کی کڑی تھی۔ کیا وہ یہ بتانے کیلئے تقریر کرنا چاہتے تھے کہ یہ سب تو ’’ جھاکا‘‘ تھا میں نے جو کچھ کیا وہ سب دل پشوری کرنے کیلئے تھا۔ آپ اسے مذاق سمجھیں اور اب بھول جائیں۔ کہانی یہ تھی کہ الیکشن کی رات ہی چانن ہو گیا تھا بمشکل عزت بچے گی وہ بھی دست غیب کے تعاون سے پھر جو کچھ ہوا جس طرح ہوا وہ کہانی دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے ہر کونے سے اس کی تعریف ہو رہی ہے۔
انکل سرگم نے بتایا کہ جناب نواز شریف آج کل بھی سکہ رائج الوقت ہیں حتیٰ کہ وزیر اعظم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں ان سے پوچھ کر اٹھاتے ہیں، یعنی انہیں جہاں تک جانے کی اجازت دی جاتی ہے، جاتے ہیں جہاں روکا جاتا ہے وہاں رک جاتے ہیں، کہنے والوں نے یہ بات کہلوا دی کرنے والوں نے کردی سننے والوں نے سن کر جو تصور باندھا ہے وہ بچپن میں دیکھے گئے اور برتے گئے اور اس سے کھیلے گئے کھلونے کا ہے جیسے چابی والا گھوڑا کہتے ہیں۔
حقیقت اس کے برعکس ہے وزیر اعظم پاکستان کوئی بھی ہو کہیں کا بھی ہو وہ چابی والا گھوڑا نہیں ہوتا، پھر ایٹمی پاکستان کا وزیر اعظم خود ایٹمی مزاج نہ بھی رکھتا ہو اتنا ٹھنڈا ٹھار نہیں ہوتا جتنا بتایا جارہاہے، ایٹمی پاکستان کا وزیر اعظم کسی کی نہیں سنتا کسی کی نہیں مانتا سوائے ان کے جنہوں نے اپنی قوت کو استعمال کر کے ایٹمی دھماکے کرائے ورنہ بزنس مینجر کی شہرت رکھنے والے تو رائے عامہ ہموار کرانے میں لگے تھے اور قوم کو ڈرانے میں مصروف تھے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان پر پابندی لگ جائینگی۔ پاکستان پہلے بنجر ہوگا پھر اجڑ جائے گا، لہذا امریکی صدر کلنٹن سے جو ملتا ہے ۔ اینٹھ لینے میں پاکستان کی بہتری ہے۔
ایٹم بم بنوانے والے تو ایٹمی دھماکے کرنا چاہتے ہی تھے عوام بھی ان کے ہمنوا بن گے اور ملک کے طول و عرض سے آواز اٹھی یوں ایٹمی دھماکے مجبوری بن گئے۔ اس موقع پر ہر چہرے سے نقاب اٹھ گیا ہر کردار واضع ہو گیا، تمام ابہام ختم ہوئے پھر وقت کا انتظار کیا گیا اور ایٹمی دھماکوں کی راہ میں رکاوٹ کرنے والوں کا دھماکہ ہو گیا۔
تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے والے اور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بن کر قوم کی تقدیر بدلنے کی آرزو رکھنے والے عظیم لیڈر کے ساتھ آج کل کچھ نہیں ہو رہا، پہلے تو انہیں وزیر اعظم نہیں بننے دیا، انہوں نے اس حق تلفی کو برداشت کیا اور ایسے میں جبکہ تمام دنیا نے چہرے سے ماسک اتار دئیے ہیں وہ پھر بھی ہر جگہ ماسک پہنے نظر آتے ہیں منہ سے کچھ نہیں بولتے، اب انہیں لور لور پھر کر تنور تنور پھر کر سستی روٹی چیک کرنے پر لگا دیا ہے۔ ان کے خلاف یہ ان کے اپنوں کی سازش ہے، جس کا انہیں ادراک نہیں، سستی روٹی سکیم فیل ہو چکی ہے اس کے ساتھ پنجاب کی چیف منسٹری بھی تنور مافیا کسی کی نہیں سن رہا۔ روٹی بیس روپے میں بک رہی ہے اور دھڑے سے بک رہی ہے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ جس کی بات تنور والے نہیں سن رہے اس کی بات وزیراعظم کیوں سنے گا اور اس سے پوچھ کر کیوں چلے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button