Column

جان جاں سید حیدر تقی

تحریر : راجہ شاہد رشید
ملک کے سر بلند و سنجیدہ صحافی اور قومی اخبار روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحات کے انچارج سید حیدر تقی یہ جہان چھوڑ کر وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس لوٹ کر نہیں آیا۔ شکیب جلالی جی کے الفاظ میں:
جان جاں کے ہجر میں دل ہوا فگار
جُدا ہے جب سے دلرُبا شکیب نہ قرار ہے
محترم تقی جی کا تعلق ایک معروف و مستند ادبی و فکری گھرانے سے تھا۔ آپ ایک عظیم فلسفی اور روزنامہ جنگ کے سابق مدیر سید محمد تقی کے فرزند ارجمند تھے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور کالم نگار رئیس امروہوئی آپ کے تایا تھے۔ اور چوٹی کے شاعر بلکہ بلبلٍ ہند و پاک جناب جون ایلیا حیدر تقی کے چچا تھے ۔ جون جی کے الفاظ میں :
باد صبا بتا دے حیدر میاں کہاں ہیں
وہ جان جاں کہاں ہیں، جانان جہاں کہاں ہیں
برادرم و محترم حیدر تقی جی کے انتقال کا سن کر دل ہی اداس ہو گیا، کئی زخم تازہ ہو گئے جیسے ان کے غم میرے ہی غم ہیں مگر غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے۔ اللہ کریم سب سوگواران کو صبر سے نوازیں اور مرحوم سید حیدر تقی کو جنت الفردوس میں مقام عنایت فرمائیں۔ آدمی زندگی سے کچھ بھی ادھار نہیں لیتا، اگر کفن بھی لیتا ہے تو زندگی دے کر ، زندگی موت ، جدائی، درد ، پیار اور رشتے کئی کھڑکیاں کُھلتی ہیں ، کچھ وارد واردات ہوتی ہے اور توارد بھی کہ زندگی کیا ہے۔؟ سائنس کہتی ہے اور کیمونزم بھی کہ دھڑکتے دلوں اور بس چلتی سانسوں کا نام زندگی ہے جبکہ اہل علم و ادب و فلسفہ و منطق دفتر بھرتے نہیں تھکتے، کوئی زندگی کو احساسات و جذبات کی جنت کہتا ہے تو کوئی اسے لالچ و خواہشات کا جہنم قرار دیتا ہے۔ کوئی اسے بچوں کی سی معصومانہ حرکتیں اور کوئی جوانی کی شوخ و چنچل اداں سے تعبیر کرتا ہے ۔ کوئی حرکت و عمل کوئی سوز و ساز کوئی نظر و نظارہ کو ہی زندگی کہہ دیتا ہے تو کوئی اسے پیش آئینہ و پس آئینہ یا پھر درون آئینہ شہادتوں کا عکس گردانتا ہے۔ زندگی کی تعریف کچھ بھی ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ مصور حقیقی کے کمال فن کی عظمتوں کا لافانی و لاثانی ثبوت ہے۔ یہ لافانی ثبوت در حقیقت اپنی اصلیت کی اعتبار سے فانی الاصل ہے۔ اس کا خوبصورت ترین پہلو بلکہ وہ پہلو جس نے آلام عالم کے زخموں پہ ہمیشہ مرہم کا کام کیا ہے وہ انسانی زندگی کا محبت اور خون کے رشتوں میں پرویا ہوا ہونا ہے۔ رشتے تو محبت کے ہی ہوتے ہیں خون اور نسب و حسب بھی ایک نسبت ہے جو محبت کے پودے کو مرجھانے نہیں دیتی۔ اگر ہم زندگی کو پھول کہیں تو رشتے اس کی خوشبو اور اگر زندگی کوئی ثمر آور درخت ہے تو رشتے اس کا ثمر یا پھر زندگی اگر نام ہے کسی مذہب کا تو رشتے اس کی حور و غلمان ، گویا زندگی رشتہ رشتہ مہکتی، پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہی ، زندگی رشتوں کی گود میں کھیلتا، مسکراتا، ہنستا ہنساتا ایک معصوم سا بچہ جو ہر کسی کے من کو بھاتا۔ زندگی کی تمام تر حشر سامانیاں اپنی جگہ ، اس کی جملہ خوبصورتیاں ایک طرف مگر ایک اور چیز بھی ایسی ہے کہ جس کے بغیر زندگی کی تعریف ادھوری اور نامکمل رہتی ہے۔ جی ہاں اگر منفی چارج نہ ہو تو مثبت بھی مکمل نہیں ہوتا۔
بقول غالب: نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا۔ موت کیا ہے۔؟
زندگی کی طرح اس کا دامن بھی تعریفوں کے انبار سے بھرا پڑا ہے۔ اگر زندگی آغاز ہے تو موت اس کی آخیر۔ اگر زندگی ایک خوش رنگ و خوشنما تتلی ہے تو موت اس کے اُڑتے ہوئے رنگ و پر ، یا پھر اس کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہوئی پرواز ۔ زندگی اگر جذبات کی جنت ہے تو موت آدم کی جنت سے روانگی ۔ زندگی گر موجود ہے تو موت اس کا عدم۔ کوئی اسے انتقال قرار دیتا ہے تو کوئی روز جزا کا پڑائو۔ کوئی محبوب سے دوری تو کوئی وصال محبوب کی نوید۔ کوئی اسے فنا ہونا کہتا ہے تو کوئی دریا کا سمندر میں اُترنا، بقول احمد ندیم قاسمی:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جائوں گا
اقبالؒ کے الفاظ میں:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
کوئی قطرے کی سمندر سے علیحدگی کہتا ہے تو کوئی قطرے کا سمندر سے ملاپ۔ میرے پنجاب کے پردھان صوفی شاعر حضرت سائیں سخی سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ: قطرہ ونج پیا سمندرے، ھُنڑ قطرہ کون کہاوے ھُو۔
سب کچھ بجا لیکن مادی زندگی جس کی تمام تر خوبصورتی پیار کے رشتوں کی محتاج ہے ، موت اس کو کاٹنے والی شے ہے جو زندگی کے ساتھ ساتھ رشتوں کی رگ حیات کو بھی کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ قیامت ہے جہاں جذبات کے سامنے صبر و رضا کے فولادی بند دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی مانند اُڑتے پھرتے ہیں، موت ہمت کے ہمالہ کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ اصول و قواعد و ضوابط کے تمام بتوں کو پاش پاش کر دیتی ہے اور انسان بے بسی و لاچارگی کے کھلے میدان حشر میں سانسوں کی نفسا نفسی میں سب کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ ہمارے ایک قاضی جی سب کو رونے پیٹنے ماتم کرنے سے منع کیا کرتے تھے مگر جب ان کا اپنا جوان بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا تو قاضی بچوں کی مانند دھاڑیں مار کر رویا اور عورتوں کی طرح سینے پر زور زور سے ہاتھ مار کر ماتم بھی کیا ۔ عیش و عشرت اور خوشیوں بھری زندگی جینے والوں کو کیا خبر کی موت کے ماروں کے اندر کا حال کیا ہوتا ہے ، دکھ کسے کہتے ہیں، غم و آنسو اور غم کے دریا کس خیالی شے کا نام ہے، درد کیا ہے اور درد دل کیا ہوتا ہے کوئی سید حیدر تقی کی فیملی سے پوچھے کہ کیسے یہ ہجر و غم مار مار کر نڈھال کر دیتے ہیں لیکن لواحقین کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ شاہ اُمم آں حضرت محمد ؐ کا ارشاد برحق ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا وہ مومن بندہ جس کی محبوب ترین چیز میں واپس لے لوں لیکن وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر و رضا کا مظاہرہ کرے، اس کے لیے میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے‘‘۔
سید حیدر تقی جی یقیناً اپنے حیدری نام و نسبت کی بدولت بھی اگلے جہاں میں پریشان نہیں بلکہ کامران ہوں گے، ان شاء اللہ۔
وپل کمار کے الفاظ میں :
ہم ہی نے حشر اُٹھا رکھا ہے بچھڑنے پر
وہ جان جاں تو پریشان بھی زیادہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button