CM RizwanColumn

ملک ہے یا OLX

تحریر: سی ایم رضوان
کوئی مبالغہ نہیں، کوئی لفاظی نہیں اور کوئی جھوٹ نہیں، سچ ہے کہ ہم نے چائنا کو راہ بیچ دی۔ ایک بڑی بندرگاہ بیچ دی۔ فصل اور زمینیں بیچنے کے لئے رکھی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف قرضے کی قسطیں ادا کرنے اور معیشت کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے مزید قرض لیا جائے گا۔ تیسری طرف ملکی ادارے، اثاثے اور معدنیاتی وسائل فروخت کئے جائیں گے۔ چوتھی جانب ادارے پرائیویٹائز کر کے مال حاصل کیا جائے گا۔ سب سے خوفناک حقیقت یہ کہ یہ ساری متاع بیچ کر بھی جو وسائل حاصل ہوں گے ان کو حکومتی اللوں تللوں پر خرچ کیا جائے گا۔ کسی ایسے منصوبے پر ہر گز نہ لگایا جائے گا جس سے آئندہ کسی بھی قسم کی معاشی آسودگی کی توقع ہو۔ یہاں تک کہ ملک میں مہنگائی اور انارکی بھی ختم نہ ہو تو آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ وہاں کیا ہوگا۔ ظاہر ہے اپنے عوام کو مہنگائی کی تلخ ترین صعوبت دینے والی حکومت خواہ وہ کسی بھی فرشتے یا پردہ دار کی ہو گی ہمیشہ ڈولتی ہی رہے گی اور عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ کوئی ملک ہے یا olx؟ مندرجہ بالا قباحتوں میں سے ایک پرائیویٹائزیشن یا نجکاری کا آج کل بڑا چائو، چرچا اور شوق نصف حکمرانوں کے دامن گیر ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اس سے بر سر روزگار عوام کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو کر سڑکوں پر آ جائے گی۔ اوپر سے ایسی مہنگائی ہوگی کہ جو عوام نے نہ پہلے کبھی دیکھی نہ سنی ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں معاشی مسائل ہیں مگر سنجیدہ مزاج اور محب وطن حکمران رکھنے والے ممالک میں ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے مثر اور بے ضرر حل سوچے اور نافذ کیے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان جیسے وائسرائے ٹائپ حکمران رکھنے والے ملک میں ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ جنہیں بلا مبالغہ معاشی خودکشی قرار دیا جا سکتا ہے۔ آزاد معاشی مبصرین پاکستان کی معیشت کو اس وقت دنیا کی ان معیشتوں میں شمار کر رہے ہیں جو اپنے بڑھتے ہوئے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو کر اپنی معاشی موت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ پیش گوئی یہ کی جا رہی ہے کہ آنے والی ایک دہائی مشکل قرضہ جات کی دہائی ہوگی کیونکہ قرض لینے کے بحران نے متعدد ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضہ جات میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 3ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچی ہے۔ یہ صورتحال گزشتہ چالیس برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ اضافے کے موقع پر سامنے آئی۔ حتیٰ کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ملکوں میں بھی قرضوں میں اضافے کی شرح بے قابو ہو چکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انہی ممالک کا قرضہ 80فیصد سے زائد ہے۔ دوسری طرف اگر ابھرتی مارکیٹوں کو دیکھیں تو چین، بھارت اور برازیل نے سب سے زیادہ قرض لئے ہیں۔ اب خدشہ اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہو کر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جبکہ کچھ ابھرتی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔ سب سے بری خبر یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں جاپان اور برطانیہ 2023کے دوسرے نصف میں سرد بازاری کا شکار ہو گئیں۔ دوسری طرف جاپان کی معیشت غیر متوقع طور پر گراوٹ کا شکار ہو گئی اور اس کی جی پی ڈی گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں 3.3فیصد تک سکڑ گئی جبکہ برطانوی معیشت میں بھی گراوٹ آ گئی ہے۔ جو اعداد و شمار جاپان کی کابینہ نے دیئے ہیں ان کے مطابق جاپان عالمی معیشتوں میں اپنی تیسرے نمبر کی پوزیشن کھو چکا ہے۔ اب وہ دنیا کی تیسری بڑی عالمی معیشت نہیں رہا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اب جرمنی برطانیہ کی جگہ تیسری بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپانی معیشت کی قدر 4.2 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جرمن معیشت کی قدر2023 میں 4.4 ٹریلین ڈالر رہی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جاپانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال 9فیصد تک گر گئی تھی۔ اسی طرح برطانیہ کے لئے بھی برا وقت شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ سال میں اس کی جی ڈی پی 0.3فیصد رہی اور گزشتہ سال ہی جولائی سے ستمبر کے درمیان اس کی معیشت 0.1فیصد سکڑ گئی جبکہ اسٹرلنگ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کمزور رہا جبکہ برطانیہ اور جاپان جو گروپ آف سیون کہلاتے ہیں کو بھی سرد بازاری کا سامنا ہے۔ برطانوی کنزرویٹو پارٹی پچھلے ستر سالوں سے زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے اب معاشی معاملات میں عوام لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی حکومتوں نے اپنے عوام کا معیارِ زندگی گرنے نہیں دیا اور ان کے ماہرین دن رات ان بحرانوں سے نکلنے کا چارہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ کہنا کوئی عجب نہیں کہ نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔ عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھرمار ہو گی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ عوام اگلے دو سال کسی بھی ریلیف کو بھول جائیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کی وجہ سے اس دفعہ اتنے زیادہ بجلی کے بل آئیں گے کہ عوام پنکھے چلانا بھی بھول جائیں گے۔ ایئر کنڈیشنر کا تو عام آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعت کار فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بیروزگاری، غربت، مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ڈیفالٹ کا خطرہ خدا نخواستہ پھر منڈلا سکتا ہے۔ آئندہ جون تک پاکستان کو 28ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر غیر ملکی قرضہ جون 2024تک 820کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا ہے پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر اب 41فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس طرح غربت کے شکار افراد کی تعداد 12کروڑ 66 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کی نصف آبادی سے زائد ہے۔ ایک کروڑ20لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار ہیں۔
مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان میں صنعت کار، مزدور، کاریگر سب کام چھوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جتنا سرمایہ اور محنت وہ لگاتے ہیں اتنا منافع حاصل نہیں ہوتا لہٰذا وہ کسی دیگر ذریعہ سے پیسہ کمانے کا سوچنے لگے ہیں۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14.48فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کم آمدن والے افراد کے لئے یہ اضافہ 15.72فیصد ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ایل پی جی کی قیمتوں میں 75فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں 61.11فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اگر کھانے پینے کی اشیاء کا جائزہ لیں تو ایک سال کے دوران سرسوں کا تیل 46.49فیصد گھی 44.25فیصد اور کھانے کا تیل 40.78 %مہنگا ہوا۔ گزشتہ ایک سال کی نسبت پٹرول 32.22فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں28.91فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ظاہر ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اسی طرح روپے کی قدر میں تیزی سے ہوتی کمی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں حالیہ عرصے کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا۔ ان حالات نے ہر پاکستانی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کوئی خاتون خانہ ہے تو وہ پریشان ہے۔ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، علاج معالجے اور دیگر ضروریات زندگی سے لے کر باورچی خانے اور تعلیمی اخراجات تک حد سے بڑھ گئے ہیں۔ مزدور کی مزدوری گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ تنخواہ دار کی تنخواہ اخراجات کے مقابلے میں اونٹ منہ میں زیرہ جیسی ہو گئی ہے۔ غریب کا تو برا حال ہے ہی اب تو امیر بھی مہنگائی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گاڑی مالکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر درمیانہ طبقہ جو ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ بری طرح پریشان ہے۔
دوسری طرف حکمرانوں کے مہنگائی ختم کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک کو قرضوں کی دلدل میں مزید پھنسایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے نے ہر چیز کی قیمت آسمان تک پہنچا دی ہے۔ غریب کا تو اللہ ہی حافظ ہے مگر حکمرانوں کو بھی تو ملک اور عوام پر نگران بنایا گیا ہے تاکہ وہ ملک کے نظام کو درست کریں اور عوام کے لئے سہولیات فراہم کریں مگر افسوس کہ ماضی کی طرح اس بار آنے والے حکمرانوں نے بھی مہنگائی ختم کرنے کے دعوے پورے کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ مہنگائی ختم کرنے میں کوئی مثبت سرگرمی نہیں دکھائی۔ بلکہ اب آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر غریب کی سانسیں بند کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ خود حکمران طبقہ تو امیر اور مراعات یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے انہیں آٹے دال کا بھا تک معلوم نہیں۔ اگر معلوم بھی ہو تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے کی فراوانی ہے مگر جس کی تنخواہ بیس ہزار ہو اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہو اس کے بچے بھی پڑھ رہی ہوں یا ایک شخص جو دیہاڑی دار مزدور ہے۔ روز کی آمدنی سے اس کا گزارا ناممکن ہے ان حالات میں کسی جرم کا ارتکاب یا خود کشی کے واقعات کوئی عجوبہ نہیں جن کی وجہ غربت اور بیروزگاری ہوتی ہے۔ خود اسلام نے غربت اور بدحالی سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس سے لوگوں کا دین اور ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے حکمران خواہ وہ شہباز شریف ہوں یا ان سے اوپر کوئی پردہ دار طاقتور۔ حکومت بہرحال ایک بڑی طاقت ہوتی ہے۔ حکومت کے ماتحت معیشت و اقتصادیات کے نگران ادارے اگر مہنگائی کی اس قدر گھمبیر صورتحال کو تبدیل کرنا چاہیں تو ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اور اگر اب بھی عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو شہباز شریف یا اس کے پیچھے یا اوپر جو کوئی بھی حکمران ہے اس کے لئے آئندہ مہنگائی کے ان حالات میں حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا اور بالآخر یہ سوچنا ہو گا کہ ملک کو olxبنا کر بھی اگر کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے تو لائی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button