Ali HassanColumn

روئیداد خان مرحوم

تحریر : علی حسن
پاکستان کے اہم حیثیت کے حامل سینئر سول افسر کا ایک سو ایک سال کی عمر میں دو روز قبل انتقال ہو ا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ سرکاری افسر نے ایک سے زیادہ اہم عہدوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ پاکستان کے چھ صدور کے ساتھ بھی کام کیا۔ ان صدور میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق، غلام اسحاق خان اور سردار فاروق احمد خان لغاری شامل تھے۔ روئیداد خان نے قیام پاکستان سے قبل سے سرکاری ملازمت کی ابتداء کی۔ انہوں نے پاکستان کے دولخط ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اہم واقعات کو قریب سے دیکھا، کئی معاملات پر فیصلے صادر کرنے کا موقع بھی ملا۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی، مایوسی انہیں کچھ عرصے بعد پاکستان تحریک انصاف میں لے گئی۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا با ضابطہ اعلان تو نہیں کیا لیکن ان کی خاموشی ان کی مایوسی ظاہر کرتی تھی۔ روئیداد خان کے ایک بھائی عبدالخالق خان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور 1970میں عام انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ وہ بھی پیپلز پارٹی سے دل برداشتہ ہو کر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ وہ پیپلز پارٹی کے ان پانچ رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے بھٹو کے دور اقتدار میں آئین کی تشکیل کے فوری بعد ہی پارٹی کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انہیں نے 1973کے آئین کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ آئین عوام کے مسائل حل نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے 1997 میں اپنے تجربات ، مشاہدات ، اور ان پر بیتے ہوئے واقعات کو اپنی کتاب میں سمو دیا ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب کا نام Pakistan: a dream gone sour ہے ۔ اس کے اردو زبان میں ترجمہ کا نام ’’ پاکستان انقلاب کے دہانے پر ‘‘ رکھا گیا۔ ایک سابق سول افسر عرفان احمد امتیازی نے کتاب کا بہترین ترجمہ کیا لیکن نا معلوم وجہ کی بنیاد پر اس کا نام کیوں ’’ پاکستان انقلاب کے دہانے پر ‘‘ پر رکھا گیا حالانکہ اس کے اور کئی ترجمہ ہو سکتے تھے۔ بہر حال کتاب کی ابتداء میں دیباچہ کا آغاز ’’ جس دن ہم اظہار حق و صداقت سے دانستہ چشم پوشی کرتے ہیں، اسی دن سے ہم مرنا شروع کر دیتے ہیں‘‘ امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ سے شروع کیا گیا ہے۔ دیباچہ کے مضمون میں، روئیداد خان لکھتے ہیں ’’ نہ میں پیشہ ور مصنف ہوں نہ تصنیف کی جانب میرا کوئی فطری رجحان ہے، نہ میں نے کتاب لکھنے کی کوئی تربیت حاصل کی ہے، لہذا میرے لیے کتاب لکھنا ایک نیا تجربہ ہے، جو بیک وقت انوکھا بھی ہے، دلچسپ بھی ہے اور ڈرائونا بھی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے اپنی حیاتِ مستعار کی ڈھلتی شام میں آخر تحریر و تصنیف کے خارزار میں قدم کیوں رکھا؟ میرا جواب یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے میرے ذہن و قلب میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ میں اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو قلم بند کرکے قارئین کو وہ مناظر دکھلائوں جو میں نے اپنے آنکھوں سے خود دیکھے ہیں اور وہ صدائیں سنوائوں جنہیں میں نے اپنے کانوں سے خود سنا ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ میں اپنی اس خواہش کو دبا دوں لیکن جتنا میں دباتا تھا، اُتنا وہ ابھرتی تھی حتیٰ کہ میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ جو میں نے دیکھا، جو میں نے جانا، جو میں نہ سمجھا، اُس کو بلا کم و کاست، لکھ دوں۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ مجھ کو چالیس سال سے کچھ زیادہ عرصہ حکومت پاکستان کی خدمت کا موقع ملا۔ یہ کتاب اُسی عرصہ کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کی پچاس سالہ تاریخ میں بڑے پیچ و خم آئے بڑے بڑے نازک مرحلے آئے بڑے بڑے سنگین بحران آئے۔ اتفاقاً ان میں سے بہت سوں کہ مجھے قریب سی دیکھنے کا موقع ملا اور کچھ میں میں خود شریک بھی تھا۔ لیکن یہاں میں یہ وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ کتاب لکھ کر پاکستان کی مربوط تاریخ لکھنے کی کوشش ہر گز نہیں کی ہے۔ یہ کتاب، تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔ یادداشتوں کی کتاب ہے اور یہ یادداشتیں ان واقعات سے متعلق ہیں جو قومی تاریخ میں بہت اہم ہیں اور جب قومی لیڈر اہم فیصلے کر رہے تھے میں اُن لیڈروں کے قریب موجود تھا۔ میں نے اپنی اس کتاب میں واقعات و افراد پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے میں نے محض اپنی رائے دی ہے اور وہ رائے حتمی نہیں۔ محض ایک رائے ہے اُس شخص کی جسے تقدیر نے ملک کے ممتاز لیڈروں کے قریب اس وقت لابٹھایا جب وہ لیڈر اہم فیصلے کر رہے تھے۔ بنیادی طور پر میری یہ کتاب پاکستان کے چھ صدور کی کہانی ہے، جو1958 کے بعد سے ملک میں برسر اقتدار رہے یعنی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق، غلام اسحاق خان اور سردار فاروق احمد خان لغاری۔ اگرچہ میں نے کام ان چھ میں سے صرف پانچ کے ساتھ کیا لیکن میں جانتا ان سب کو تھا کسی کو ذرا زیادہ کسی کو ذرا کم۔ سب سے بہتر مجھ مجھ کو غلام اسحاق خان کو جاننے کا موقع ملا اس کے بعد بالترتیب ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق، جنرل محمد یحییٰ خان، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، سردار فاروق احمد خان لغاری شامل تھے۔ یہ صحیح ہے کہ سردار فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع مجھ کو نہیں ملا لیکن 1993ء میں حالات ہم دونوں کو اتنا قریب لے آئے کہ مجھے انہیں اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کا موقع مل گیا۔ ان سب صدور کی اپنی اپنی منفرد شخصیت تھی، ہر ایک کا اپنا اپنا کردار تھا اپنا اپنا انداز تھا۔ لیکن جو قدر سب میں مشترک تھی وہ یہ تھی کہ ان سب نے پاکستانی قوم کو کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مایوس کیا۔ پاکستان کے خواب کو تعبیر سے دور کیا، عامہ الناس کو در دو کرب میں مبتلا کیا۔ حتیٰ کہ انہیں لگا جیسے ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہو اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے حکمرانوں سے بلکہ اپنے ملک سے اپنے مستقبل سے حتیٰ کہ اپنے آپ سے بددل اور بیزار ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ان چھ صدور نے اپنے اپنے عہد صدارت کے بعد قوم کے لیے کیا ورثہ چھوڑا؟ اور یہ کہ ان کی کارکردگی پر تاریخ کا فیصلہ کیا ہوگا؟ برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کا قول ہے کہ ’’ کسی شخص پر تاریخ کے فیصلے کا انحصار اس کی فتح و شکست پر نہیں بلکہ ان کے نتائج پر ہوتا ہے‘‘۔ مجھے ونسٹن چرچل کے اس قول سے اتفاق ہے۔ سکندر اعظم کو دیکھیے کہنے کو فاتح عالم تھا لیکن ہندوستان سے پسپا ہوا۔ چنگیز خان نے دنیا کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا لیکن اس کی کامیابیوں کو اس کے بیٹوں نے خاک میں ملا دیا۔ نپولین آگ بگولہ بن کر اٹھا اور گردو پیش پر چھا گیا لیکن آخر کار فرانس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ غرضیکہ جو جتنا اونچا اڑا اتنا ہی نیچے گرا۔ 12نومبر 1940ء برطانوی دارالعلوم میں اپنے پیش رو وزیراعظم نیول چیمبرلین کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے سرونسٹن چرچل نے کہا تھا۔ ’’ تاریخ اپنا ٹمٹماتا دیا تھامے ماضی کی روشنیوں میں لڑکھڑاتی ہے، اس کوشش میں کہ بیتے منظر دوبارہ دکھلادے، بھولی بسری صدائے باز گشت پھر سنوا دے، ماضی کے جوش و جذبے کا چراغ پھر روشن کر دے، چاہے روشنی مدھم ہی کیوں نہ ہو، تاریخ اپنے میں صرف انہی قائدین کی یاد محفوظ رکھتی ہے جو صاحبِ ضمیر ہوں، راست باز ہوں نیک نیت ہوں کارزار حیات میں راست بازی، نیک نیتی باضمیر صاحب کردار قائدین کی ڈھالیں ہیں۔ ان ڈھالوں کے بغیر زندگی کی جنگ لڑنا نادانی ہے، یہ نہ ہوں تو ہمارے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں، ہماری امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور اپنی ناکامیوں کے باعث ہم ہدف تضحیک بن جاتے ہیں لیکن اگر راست بازی اور نیک نیتی کی ڈھالیں ہمارے ہوں ہوں تو قسمت ہمارے ساتھ رہتی ہے ہمارا وقار کم نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے اپنی اس کتاب میں اپنے ملک کے ماضی کے چند دھندلے گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ قارئین کیلئے وہ دھندلے گوشے اس کتاب کے پڑھنے کے بعد زیادہ واضح اور روشن ہوجائیں گے۔ میرے نزدیک بنیادی سوالات یہ ہیں کہ پاکستان کا خواب پریشان کیسے ہوگیا؟، ہم کہاں راستہ بھٹک گئے؟ کہاں الجھ گئے؟ ہمارے قومی اداروں کا کردار کیا رہا؟ اور وہ کس حد تک موجودہ غیر تسلی بخش قومی صورتحال کیلئے ذمہ دار ہیں؟ کیا چوروں ، لٹیروں، ٹھگوں کی محکومی ہمارا مقدر ہے؟ کیا کہیں سے امید کی کرن نظر آرہی ہے یا نہیں؟ کیا ہم من حیث القوم اپنے آپ کو اس سیاسی دلدل سے نکال سکتے ہیں؟ کیا اب پانی سے گزر چکا یا ابھی اُمید کی رمق باقی ہے؟ کیا قوم پر نزع کا عالم ہے؟ کیا سپریم کورٹ پر یلغار کے بعد قانون کی بالادستی قائم رہ سکتی ہے؟ کیا انقلاب آنے والا ہے؟ کیا ایسی ریاست جس کے حکمرانوں نے قوم کو بے حیائی اور ڈھٹائی سے پے در پے لوٹا ہو وہ اپنے شہریوں سے وفاداری طلب کر سکتی ہے؟کیا قوم کی تجدید و احیائے نو اور نشا الثانیہ ممکن ہے؟ ۔ یہ ہیں وہ چند سوالات جو بار بار ذہن میں ابھرتے ہیں۔ میں نے کتاب میں ان سوالات کے جوابات حتیٰ الوسع غیر متعصبانہ، معروضی اور بلاکم وکاست انداز میں دینے کی کوشش کی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے میرا مقصد اپنے اعمال کا جواز پیش کرنا یا ان کی وکالت ہر گز نہیں۔ نہ میرا مقصد کسی ادارے یا کسی فرد کی تضحیک یا اس کے خلاف اشتعال انگیزی ہے۔ نہ میری نیت کسی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ افلاطون (428 تا 348ق م ) نے لکھا ہے ’’ جب کوئی دولت کا پجاری، حکمران بن بیٹھے، یا جب فوجی، فوج کی مدد سے فوجی آمریت قائم کر لے، ان کا نتیجہ بربادی و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تاجر کا ہنر معیشت میں ہے اور فوجی کا میدان جنگ میں، جہاں بانی سے دونوں ناآشنا ہیں اور ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، ان کی نااہلی سے اعلیٰ تدبر کا زوال اور یشہ دوانیوں کا عروج ہوتا ہے۔ سیاسی تدبیر، سائنس بھی ہے اور فن بھی، اسے حاصل کرنے کیلئے عرصہ دراز لگتا ہے، بلکہ پوری عمر عزیز وقف کرنا پڑتی ہے، یہ عجب بات ہے کہ کفش دوزی، جوتا بنانے کیلئے آپ اور ہم تربیت یافتہ ماہر موچی کی خدمات ضروری سمجھتے ہیں، لیکن سیاست کیلئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص ووٹ حاصل کر سکتا ہے وہ ملک بھی چلا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ عجب بات ہے کہ جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو آپ ہم مستند معالج کو بلاتے ہیں جس کی سند اس کی خصوصی تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی ضمانت ہوتی ہے۔ ہم اس وقت یہ نہیں کہتے کہ سب سے خوش شکل معالج کو بلا دیا سب سے خوش گفتار ڈاکٹر کو بلائو۔ تو پھر جب پوری ریاست بیمار ہو تو کیا ہمیں جستجو کرکے سب سے زیادہ دانشمند قائد کو نہیں بلانا چاہیے، تاکہ وہ اپنی فہم و فراست اور حسن تدبر سے ریاست کی موثر خدمت کرے اور صحیح سمت میں قیادت کرے؟‘‘ کتاب میں ایک جگہ روئیداد خان نے خلیل جبران (1853ء تا 1931ء ) کی مشہور نظم کو نقل کیا ہے ۔ ’’ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقائد تو ہوں دین نہ ہو۔ قابل رحم ہے وہ قوم جو جابر کو بہادر سورما مانے اور جسے ہر جگمگاتا ہوا فاتح، خوبصورت نظر آئے۔ قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنی آواز صرف اس وقت اٹھائے جب وہ جنازے کے پیچھے چلے یا جب پھانسی کا پھندا اس کے گلے میں پڑ جائے۔ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے دانشور مُرور وقت سے خاموش ہو جائیں اور جس کے مردانِ جری ہنوز عالم طفلی میں ہوں۔ قابل رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو اور اس کا ہر ٹکڑا اپنے آپ و قوم سمجھے‘‘۔
اس تماش گاہ میں کتاب 1997میں تحریر کی گئی۔ اس کے بعد بھی 2024سال تک وہ حیات رہے لیکن انہیں پاکستان کے خواب کی وہ تعبیر نظر نہیں آئی، جس تعبیر کی پوری قوم متلاشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قوم تعبیر میں ہی سرگرداں رہے گی اور مختلف حیلے بہانے قوم کو دھوکہ دے کر نام نہاد سیاسی اور غیر سیاسی رہنما ملک کے اقتدار کے باری باری مزے لے کر مر کھپ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button