Column

ضمنی انتخابات کے نتائج کا پیغام

تحریر : ظہیر الدین بابر
بظاہر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کامیابی اس سچائی مہر تصدیق ثبت کر گئی کہ عام پاکستانی نہ صرف پی ایم ایل این اور اس کی ہم خیال سیاسی قوتوں پر بھرپور اعتماد کرتا ہے بلکہ وہ محاذ آرائی اور احتجاج کی سیاست سے بھی تائب ہوچکا ہے، سیاسی طور پر حالیہ ضمنی انتخابات کا انعقاد ایسے موقعے پر کیا گیا جب پی ٹی آئی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتیں احتجاجی تحریک کا آغاز کر چکی ہیں، تحفظ آئین نامی اپوزیشن کی تحریک نے بلوچستان میں دو جلسوں کا انعقاد کیا مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ عوام کی ایسی قابل ذکر تعداد میں شرکت نہ سامنے جس پر بجا طور پر اظہار اطمینان کیا جاسکتا ، سیاسی پنڈتوں کے مطابق ضمنی انتخاب کے نتائج نے عوامی رائے کی شکل میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، مثلا اپوزیشن کی جانب سیاسی سنجیدہ تجاویز سامنے آنی چاہیں کہ کس طرح سے ملک کو درپیش اہم چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے ، حزب اختلاف کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ جمہوریت میں آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوا کرتی ہے ، کوئی بھی باخبر پاکستانی اس سچائی سے روگردانی کا مرتکب نہیں ہوسکتا کہ قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی قیادت کے اتفاق و اتحاد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ، مثلا حال ہی میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے جو طرز عمل روا رکھا اسے ہرگز ہرگز پارلیمانی نہیں کہا جاسکتا، جمہوریت میں مہذب احتیاج سے انکار نہیں مگر ایسا طرز عمل جو لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانیوں کی دل آزادی کا باعث بنے ہرگز گوارا نہیں کیا جا سکتا، اب توقعات کے عین مطابق پاکستان تحریک انصاف ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کر چکی، پی ٹی آئی رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب حکومت ہی نہیں خفیہ اداروں پر بھی الزام تراشی کی ہے کہ وہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہوئے ہیں ، اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آٹھ فروری کے الیکشن کی طرح اکیس اپریل کو ہونے والے ضمن الیکشن کے حوالے سے بھی پی ٹی آئی نے بیانیہ تخلیق کرلیا ہے، اس پس منظر میں ایک عام پاکستانی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ الیکشن کے حوالے سے ہونے والی بے ضابطگی کا کوئی ثبوت اس کے پاس ہے تو اسے متعلقہ پلیٹ فارم پر کیونکر پیش نہیں کیا جارہا، ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ضمنی انتخاب کا انعقاد ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل کیا جا چکا ہو چنانچہ عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مذکورہ الیکشن میں عوام مسائل کے حل کے لیے اسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیں گے جس کی حکومت ہے، اکیس اپریل کے ضمنی الیکشن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ان ہی پارٹیوں کے حصے میں آئیں جن کے رہنمائوں نے آٹھ فروری کے الیکشن میں میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں خالی کیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ اگر پنجاب می بیشتر نشستیں پی ایم ایل نے اپنے نام کیں تو خبیر پختوانخوا میں وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور کی خالی کردہ نشست پر پی ٹی آئی کامیاب قرار پائی ، درحقیقت پی ٹی آئی کو بدلے ہوئے پاکستان کا بجا طور پر ادراک کرنے کی ضرورت ہے، وطن عزیز کا ہر ہوش مند شخص یہ ادراک رکھتا ہے کہ احتجاج اور دھرنے اس کے مسائل کا متبادل نہیں ہوسکتے ، دنیا کے ہر پختہ جمہوری نظام کا مطالعہ ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں کھیل کے بنیادی قواعد و ضوابط طے ہوتے ہیں، مگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ملک کی نمایاں سیاسی قوتوں مثلا پی پی پی ، پی ایم ایل این ، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی سے بات چیت پر آمادہ نہیں، سچ تو یہ ہے کہ درج بالا سیاسی قوتیں اب تک ہونے والے ہر الیکشن میں اپنی عوامی حمایت ثابت کر چکیں، یہ کھلا راز ہے کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں، بانی پی ٹی آئی اگر بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں تو پھر قومی سیاسی قیادت سے مذاکرات کرنے میں کیا مضائقہ ہے ، پاکستان تحریک انصاف کے سوچنے سمجھنے والے حلقوں کو اپنی قیادت کو باور کرانا ہوگا کہ ان کی اصل قوت سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ہے، سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہہ کر مخاطب کرنے کی اجازت مذہب، اخلاقیات اور آئین کوئی بھی نہیں دیتا، وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی قومی اداروں، سیاسی مخالفین، الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے سنجیدگی اور متانت کا راستہ اختیار کریں، پاکستان کی معاشی صورت حال کسی طور سیاسی عدم استحکام کی متحمل نہیں ہوسکتی، ہاں سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی تصادم کی سیاست سے تائب نہیں ہوتی تو پھر کیا ہوگا ، یقینا ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کو اس حکمت عملی کی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے تو دوسری جانب روشن اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں بھی مشکلات آئیں گی، اس پس منظر میں پی ٹی آئی کو ضمنی انتخاب کے نتائج کو بطور تنبیہ قبول کرتے ہوئے ذمہ دارانہ سیاسی طرز عمل کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button