Column

ایران سے افغان مہاجرین کا جبری اخراج ؟

ایران سے افغان مہاجرین کا جبری اخراج ؟
تحریر : قادر خان یوسف زئی
جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، تو ہجرت اور پناہ گزینی کے قصے ہمیں بار بار ایک تلخ سچائی سے روشناس کراتے ہیں۔ سیاسی تنازعات اور قومی مفادات کے پیچیدہ جال میں سب سے زیادہ کمزور طبقات ہی پس جاتے ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جولائی 2025ء کی ابتدا تک ایران سے 691000افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں، جن میں جون 2025ء میں 230000شامل ہیں، جو ایک ہفتے میں روزانہ تقریباً 30000اخراج تک پہنچ گئے۔ ایران، جو کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کا عارضی گھر رہا ہے، اب ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو لاکھوں لوگوں کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔
یو این سی ایچ آر نے 2023ء کے اعداد و شمار میں 2ملین افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے، جبکہ باوثوق ذرائع اس تعداد کو 6ملین تک بتاتے ہیں، جن میں سے 2.5ملین غیر قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان غیر قانونی پناہ گزینوں کے لیے ایران نے 6جولائی 2025ء کی ڈیڈ لائن مقرر کی کہ وہ ملک چھوڑ دیں، ورنہ جبری اخراج کا سامنا کریں۔ اسلام قلعہ سرحد پر جون 2025ء میں روزانہ 7000سے 10000افراد کی واپسی اس امر کی گواہی ہے کہ ایران اپنی پالیسی پر سختی سے عمل کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سخت رویہ اچانک کیوں؟ کیا یہ صرف امیگریشن کنٹرول کا معاملہ ہے، یا اس کے پیچھے ایران، اسرائیل اور امریکا کے درمیان حالیہ 12روزہ تنازع کارفرما ہے؟
بعض غیر تصدیق شدہ رپورٹس افغانوں پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزامات عائد کرتی ہیں، جن میں گرفتاریوں اور نشریاتی اعترافات کی خبریں شامل ہیں۔ آزاد ذرائع ان الزامات کی تصدیق نہیں کرتے، لیکن یہ الزامات معنی خیز ہیں۔ خیال ہے کہ ایران کا معاشی دبا، جو حالیہ فوجی سرگرمیوں سے بڑھا، افغانوں کو نشانہ بنانے کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ 2025 ء کی ابتدا میں مردم شماری دستاویزات کی منسوخی نے غیر قانونی افغانوں کی صحت، تعلیم، اور روزگار تک رسائی کو محدود کر دیا۔
ایران کی افغان پالیسی تاریخی طور پر اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں، جب افغانستان جنگ اور افراتفری کا شکار تھا، ایران نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، انہیں عارضی رہائش اور کام کے مواقع فراہم کیے۔ لیکن جیسے ہی داخلی حالات بدلتے گئے، ایران کا رویہ بھی سخت ہوتا گیا۔ ذرائع کے مطابق، ایران نے افغان مہاجرین کو کبھی سستی مزدوری کے طور پر استعمال کیا اور کبھی سیاسی دبائو کے لیے۔ آج، معاشی تنگی اور خطے کی بدلتی صورتحال نے ایرانی پالیسی کو ایک نئے عروج پر پہنچا دیا ہے۔ میمری (MEMRI )کی رپورٹ کے مطابق، 2025ء کے اوائل میں 120000افغانوں کو جبری طور پر واپس بھیجا گیا، اور جون 2025ء میں ایک ہفتے کے اندر 88000کی واپسی نے اس پالیسی کی شدت کو ظاہر کیا۔ افغان مہاجرین کی زندگیوں پر اس پالیسی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ جبری اخراج کے دوران، خاندان اپنی جمع پونجی، املاک، اور دستاویزات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ انٹیلی نیوز(IntelliNews )نے رپورٹ کیا کہ واپس آنے والے بے سہارا حالات میں افغانستان کی سرحد پر پہنچتے ہیں، جہاں بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔ ایک افغان خاندان، جس نے ایران میں دہائیوں تک محنت کی، اپنی ساری کمائی ضبط ہونے کے بعد خالی ہاتھ واپس آیا۔ تعلیمی نقصانات بھی سنگین ہیں، 610000افغان بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی، جن میں سے نصف سے زیادہ لڑکیاں ہیں، جو افغانستان واپسی پر افغان طالبان کے سخت قوانین کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو جاتی ہیں۔
افغان عبوری حکومت، جو افغان طالبان کے زیر کنٹرول ہے، نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایران سے انسانی سلوک اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی اپیل کی ہے۔ لیکن افغانستان کے اپنے حالات اسے واپس آنے والوں کی مدد کرنے سے قاصر رکھتے ہیں۔ نصف سے زیادہ آبادی امداد پر منحصر ہے، جو افغان طالبان کی پابندیوں اور عالمی فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ وزارت مہاجرین و واپسی کے مطابق، واپس آنے والوں کو عارضی رہائش اور معمولی نقد امداد (28.50 ڈالر فی شخص) دی جا رہی ہے، لیکن یہ سہولیات لاکھوں کی تعداد میں واپس آنے والوں کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ افغانستان کی معیشت، جو جنگ اور عالمی پابندیوں سے تباہ حال ہے، نئے آنے والوں کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لو موند(Le Monde )کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان کی تقریباً 20ملین آبادی، یعنی نصف سے زیادہ، انسانی امداد پر منحصر ہے، لیکن 2025ء میں عالمی امداد میں 30فیصد کمی نے حالات کو اور خراب کر دیا ہے۔
اس بحران کا ایک اہم پہلو افغا ن مہاجرین کی سماجی اور نفسیاتی حالت ہے، جو جبری اخراج کے عمل میں شدید متاثر ہو رہی ہے۔ جب خاندان اپنی جمع پونجی، گھر، اور شناخت کے دستاویزات سے محروم ہو کر افغانستان کی سرحد پر پہنچتے ہیں، تو وہ صرف مادی نقصانات ہی نہیں بلکہ ایک گہرے نفسیاتی صدمے سے بھی گزرتے ہیں۔ ایک عالمی ادارے نے ایک افغان خاتون کی کہانی رپورٹ کی، جس نے ایران میں 15سال تک محنت کی، لیکن جبری اخراج کے دوران اس کی ساری کمائی ضبط کر لی گئی۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آئی، یہ سوچ کر کہ کیا وہ کبھی اپنے بچوں کو تعلیم اور تحفظ دے پائے گی۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق، جبری اخراج کا صدمہ، خاص طور پر بچوں پر، طویل مدتی اثرات مرتب کرتا ہے، جیسے کہ ڈپریشن، اضطراب، اور شناخت کا بحران۔ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو دکھائی نہیں دیتی، لیکن اس کا اثر نسلوں تک محسوس کیا جائے گا۔
ایران کہتا ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی اور معاشی استحکام کے لیے یہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔ افغان طالبان کہتے ہیں کہ وہ واپس آنے والوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی کمی ہے۔ اور عالمی برادری، جو انسانی حقوق کے بلند بانگ دعووں کی بات کرتی ہے، عملی طور پر اس بحران سے نظریں چراتے ہوئے نظر آتی ہے۔ اس بحران کا حل کیا ہے؟ یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں اٹھتا ہے جو اس المیے کی گہرائی کو سمجھتا ہے۔ سب سے پہلے، عالمی امدادی اداروں کو فوری طور پر فنڈنگ میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ واپس آنے والوں کے لیے رہائش، صحت، اور تعلیم کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ افغانستان کی حکومت کو اپنی داخلی صلاحیت بڑھانی ہوگی، جس کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی اور معاشی مواقع کھولیں تاکہ واپس آنے والے خاندان ایک مستحکم مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔

جواب دیں

Back to top button