Editorial

عسکری قیادت کا کامیاب دورۂ چین

پاکستان اور چین نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے رابطوں کے تسلسل سمیت تربیت، ٹیکنالوجی،انسداد دہشت گردی اورفوجی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ سطحی وفد نے9سے 12جون تک چین کا دورہ کیا، وفد نے چینی فوج اور دیگر سرکاری محکموں کےسینئر اعلیٰ حکام سے وسیع پیمانے پر بات چیت کی، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیاگیا۔ 12 جون کو اپیکس کمیٹی کااجلاس ہواجس میں پاکستان کی جانب سے وفد کی سربراہی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی جبکہ چین کی جانب سے وفد کی قیادت چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے کی۔
دونوں اطراف نے بین الاقوامی اور علاقائی سکیورٹی کی صورتحال پر اپنے اپنے نقطہ نظرپر تبادلہ خیال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیاگیا۔ پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں اپنی تزویراتی شراکت داری کا اعادہ کیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر نقطہ نظر کا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی، ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون ہمیشہ بلندیوں کو چھوتا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید واحد فوجی رہنما ہیں جنہوں نے چینی صدر کی دعوت پر چین کا دورہ کیا۔
آرمی چیف نے صرف ایک دن کا دورہ کیا، یہ دورہ پاک چین جوائنٹ ملٹری کوآپریشن کمیٹی کا حصہ ہے جس کی اعلیٰ کمیٹی فوجی تعاون میں اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔اپیکس کمیٹی کے ارکان آرمی چیف اور وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن ممبران ہیں، ذیلی کمیٹیوں میں جوائنٹ کوپ ملٹری امور مشترکہ تعاون فوجی ساز و سامان اور تربیت شامل ہے۔پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ چین پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم ایک اور اچھی خبر کا ذکر کرنا چاہیں گے، ذرائع ابلاغ کے مطابق چین نے تازہ ترین رابطے میں پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مشکل وقت میں پہلے سے زیادہ عزم اور سرگرمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ جمعہ کو دفتر خارجہ میں چین میں پاکستانی سفیر کے توسط سے موصول ہونے والی سفارتی رابطہ کاری میں پاکستانی حکومت کو بتایا گیا ہے کہ چینی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنا چاہتی ہے اور چینی قیادت نے وزیراعظم شہباز شریف کو یقین دلایا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ سرگرمی اور پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ موجودہ وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ شہباز شریف اپنے گورننس کے فلسفے کی بنیاد پر اُن چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے جو اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں اور پاکستان کو اس کے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے چین نے دو ارب ڈالرز کا قرضہ دینے کی تصدیق کی ہے جو کم شرح پر دیا جائے گا اور یہ شرح اس شرح سے بھی کم ہوگی جس پر چین نے اپنے دیگر قریبی دوست ممالک کو قرضہ جات دیے ہیں۔ پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ سطحی وفد نے دورہ چین میں چینی قیادت سے ملاقات کی اور خطے کی صورتحال اور چیلنجز بالخصوص دہشت گردی کے خاتمے پر تبادلہ خیال کیا ،
بلاشبہ پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ اور دوستی پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی، ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون ہمیشہ بلندیوں کو چھوتا رہا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تمام اہم علاقائی اور عالمی مسائل پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اس کی مثال چین کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت اور پاکستان کی طرف سےایک چین اور سائوتھ چائنہ سی پرچین کے مؤقف کی مکمل حمایت ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو متواترمستحکم کرنے کے لیے پاکستان اور چین نے مختلف سطح پر مشاورتی میکانزم تشکیل دے رکھے ہیںـ
ان میں وزرائے خارجہ کی سطح پر سٹریٹجک ڈائیلاگ، خارجہ سیکرٹری ، وائس چیئرمین کی سطح پر پولیٹیکل مشاورت اور جنوبی ایشیا ہتھیاروں کے کنٹرول، انسدادِ دہشت گردی، انسانی حقوق، بحالیِ امن، میری ٹائم ڈائیلاگ، بارڈر مینجمنٹ اور کونسلر افیئرز قابل ذکر ہیں۔ چین نہ صرف ہمارا مخلص پڑوسی ملک ہے بلکہ چین نے ہماری ہر مشکل میں ہمارا بالکل ایسے ہی ساتھ دیا ہے جیسے برادر اسلامی ملک ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے ناقابل تسخیر دفاع کے پیچھے چین کا بھرپور تعاون ہے، چین نے پاکستان کے معاملے پر نہ صرف عالمی سیاست بلکہ عالمی دبائو کو بھی اہمیت نہیں دی یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت کے درمیان تعلقات انتہائی دوستانہ اور قابل فخر ہیں،اسی لیے دفاعی شعبے میں دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کررہے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہمہ وقت رابطہ رہتا ہے۔ حربی استعداد کو بڑھانے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان اور چین کی تینوں مسلح افواج متواتر مشترکہ مشقیں کرتی ہیں غرضیکہ معیشت اور حرب سمیت کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں دونوں ملکوں کے درمیان مثالی تعاون موجود نہ ہو۔
ہم عسکری قیادت کے دورہ چین کی  اہمیت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کیونکہ خطے کی صورتحال اور خارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہماری عسکری قیادت ہمہ وقت تیار ہے، لہٰذا ہم توقع کرتے ہیں کہ عسکری قیادت کے دورہ چین کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا کیونکہ چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور پاکستان نے بھی پاک چین تعلقات پر کبھی سودے بازی یا دبائو کبھی قبول نہیں کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button