Ahmad NaveedColumn

بھارتی جمہوریت کا بد شکل چہرا مودی .. احمد نوید

احمد نوید

تقسیم کرو اور حکومت کرو !
تقسیم کرو اور حکومت کرو ، چند برسوں یا دہائیوں کی پالیسی نہیں ہے،بلکہ صدیوں پرانی حکمت عملی ہے ۔ جسے آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں سیاسی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں ۔ اس بھیانک پالیسی کی زندہ اور جیتی جاگتی مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اُن کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔

بھارت کی سیاسی تاریخ میں انگلستان سے آزادی کے بعد مودی وہ شخصیت ہیں، جس نے حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود بھارتی سماج میں پھوٹ ڈالنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ نریندر مودی کے آٹھ سالہ دور حکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور خود مودی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی پر مکمل طور پر عمل پیرا دکھائی دیتے رہے ۔ اِن آٹھ سالوں میں بھارت میں تفرقہ انگیز سیاست اپنے عروج پر دکھائی دی ۔
بھارت کے اس تاریک ترین دور میں قوم پرست ہندو مسلمانوں پر پوری طرح غالب رہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ جاری ہے ۔
بی جے پی نے اپنے دو حکومتی ادوار میں مسلمان دشمنی کو اتنا فروغ دیا اور انتہا پسند ہندوئوں کی اس قدر حوصلہ افزائی کی ہے کہ پولیس ، میڈیا اور عدالتیں بھی اُن کے سامنے بے بس ہو چکی ہیں ۔ پولیس تو چونکہ تھاہی حکومتی ادارہ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت کی چھوٹی اور بڑی عدالتیں جہاں سے پِسے ہوئے مسلمانوں کو انصاف ملنے کی توقع تھی، وہاں سے بھی اُن بیچاروں کو ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔
دی آرٹ آف وار سمیت کئی مشہور زمانہ کتابیں اور سیاسی مبصرین اس بات کے گواہ ہیں اور یہ نشاندہی کر چکے ہیں کہ تقسیم کا عمل سب سے قبل رومی سلطنت اور مختلف ملکوں کی افواج کی جنگ سے پہلے دشمن فوج کو کمزور کرنے کے لیے  پھوٹ ڈالنے اور تقسیم کرنے سے شروع ہوا۔ ماضی میں روم کے مشہور حکمران جو لیس سیرز اور فرانسیسی شہنشاہ نپولین تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں۔لاطینی محاورہ اتنا ہی پرانا محاورہ ہے ، جتنا کہ سیاست اور جنگ۔ اپنے دشمن کو تقسیم کرو تا کہ آپ حکومت کر سکیں۔ یہ محاورہ اور نقطہ نظر جو لیس سیرز سے منسوب کیا جاتا ہے جو اُس نے بائیس صدیاں پہلے اپنے دور حکومت میں کامیابی کے لیے  استعمال کیاتھا۔
غالباً اسی لیے آج بھی کہا جاتا ہے ۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور تقسیم کرو اور حکومت کرو سے بھی کئی درجے گھٹیا حرکت ہے ۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان طبقہ کسی بہت بڑی سیاسی جماعت یا دشمن کے طور پر مودی کا حریف نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی مودی نے قوم پرست ہندوئوں کا ووٹ اور دل جیتنے کے لیے  مسلمان مخالف اقدامات اور حکومتی پالیسیوں کو ترجیحات میں رکھا۔
رہنما لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں یا اُنہیں متحد کرتے ہیں ۔ مودی نے پہلے طرز عمل کو اپنایا ۔ مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات نے اس بات کو ثابت کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان ملک دشمن ہیں اور اُنہیں بھارت میں قبول نہیں کیا جا سکتا ۔
اس سوچ اور نظریے سے بھارت کے قوم پرست اور انتہا پسند ہندوئوں کی مودی کو غیر مشروط حمایت حاصل ہوئی ۔ مسلمان اس خوفناک نظریے کی بھاری قیمت چکانے پر مجبور ہیں ۔ متنازعہ شہریت بل، گائے کے گوشت کے تنازعات، پرانی مساجد میں بھگوان کی مورتیاں رکھ کر قبضے کی کوششیں یا حجاب پہننے پر پابندیاں یہ تمام عزائم اور گھٹیا حرکتیں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ مودی بھارت میں لوگوں کو مذہب کے نام پر متحد رکھنے نہیں بلکہ تقسیم کرنے کی سازش میں پوری طرح ملوث ہے۔ رہنمائی یا قیادت عبادت بھی بن سکتی ہے اگر رہنما اپنے عوام اور خاص طور پر پسے ہوئے اور مظلوم طبقے کو مسیحا بن کر تحفظ فراہم کرے ۔ مودی نے بھارت میں معاشرے کی مثبت تعمیر کی بجائے اُسے تقسیم کیا۔ عین ممکن ہے کہ یہ تقسیم آگے چل کربھار ت کو بہت سے ملکوں میں تقسیم کا باعث بنے۔
اطالوی سیاست دان اور سفارت کار نکولس میکاولی نے کہا تھا کہ سیاست کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
مودی نے یقینی طور پر پہلے دن سے ہی میکاولی کی شاگردی اختیار کیے رکھی ۔ مسلمانوں کے خلاف قوم پرست ہندوئوں کے غصے اور تشدد کو اُکسانے کے لیے مودی اور بی جے پی کی طرف سے کئی مواقع فراہم کئے گئے۔ جب لوگ مودی
کی طرح کے لیڈر کا شکار بنتے ہیں تو افراد قوم بننے کی بجائے گروہ اور جتھوں کی شکل اختیار کرنے لگتے ہیں ۔ایسے افراد بے قابو ہو جاتے ہیں اور خودپراختیار اور قابو نہ ہونے کی وجہ سے انفرادی فیصلے کرنے لگتے ہیں ۔ بھارت آج اسی گروہی سوچ اور عمل کی بھرپور تصویر پیش کر رہا ہے ۔ جو درحقیقت بھارت کی اس تباہی اور بربادی کی ہے جس جانب بھارت آہستہ آہستہ پھسل رہا ہے ۔
بی جے پی رہنمائوں کے گستاخانہ بیانات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، جو اسلام اور مسلمان مخالف رویہ بھارت کی حکومت گزشتہ آٹھ سالوں سے اپنائے ہوئے ہے ۔ بی جے پی نے اپنی حکومت کے آٹھ سالوں میں ہندو قوم پرستوں کا برین واش کر کے اُس میں اسلام نفرت کا زہر گھولا ۔ لوگوں کی مثبت سوچنے کی صلاحیت کو نہ صرف کم کیا بلکہ اُن کے دماغوں میں اپنے من پسند خیالات ٹھونسے۔ ہندوستان کے صدیوں پرانے ہندو مسلم بھائی چارے کو نیست و نابود کیا۔ آج بھارت میں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سول سوسائٹی ، آزاد خیال لوگ ، انسانی حقوق کی علمبردار تنظمیں ، صحافی برادری، فنکار اور ایسی مضبوط آوازیں جو بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمیشہ بلند ہوتی تھیں، آج خاموش ہو چکی ہیں ۔
مودی حکومت کے آٹھ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک بھارتیہ جنتا پارٹی کی منفی اور منافقانہ سیاست کا ایجنڈا ہے ۔ بی جے پی اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔ وہ کتابوں میں نئے نصاب متعارف کروا رہی ہے۔ وہ ہندوستان کے ماضی اور تاریخ تک کو بدلنے کے لیے تیار ہے۔ حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے پر بغاوت کے فوری مقدمات کا کارنامہ بھی سر انجام دیا جارہا ہے۔ جابرانہ قوانین کے استعمال میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
مودی حکومت کی بالادستی قائم کرنے میں میڈیا اور عدلیہ نے بھی تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ بھارتی جمہوریت کی شکل بد شکل کرنے، مسلمانوں کی زمین بوس کرنے اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تقسیم کرنے کی نفرت انگیز سیاست پر مودی کو احساس ندامت یا احساس جرم نہیں۔ تاہم جب بھی بھارت میں اسلام کشی کی تاریخ لکھی جائے گی ان موصوف کا نام سر فہرست ہوگا۔
منافق دعویٰ ایمان میں سچا ہو نہیں سکتا
کہ گوبر پھر بھی گوبر ہے وہ حلوہ ہو نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button