Editorial

کشمیر اور فلسطین، دُنیا کے سلگتے مسائل

کشمیر اور فلسطین اس وقت دُنیا کے سلگتے ہوئے اہم ترین مسائل ہیں، جو بھارت اور اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں کے باعث عرصہء دراز سے حل نہیں کیا جاسکے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں 75سال پہلے قرارداد منظور کی گئی تھی، جس کے مطابق مسئلہ کشمیر کو وہاں بسنے والے عوام کے استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جانا تھا، لیکن بھارت اس حوالے سے مستقل ٹال مٹول سے کام لیتا آرہا ہے۔ اس کے علاوہ اُس نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ سوا لاکھ کشمیری مسلمان آزادی کی تحریک کے دوران جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے، کتنی ہی عورتیں بیوہ کی جاچکی ہیں، کتنی ہی ماں کی کوکھ اُجاڑی جاچکی ہیں، بھارتی ظلم و جبر آج بھی پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے اور 9لاکھ بھارتی فوجی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کا ہر طرح سے استحصال جاری ہے۔ آزادی کی خاطر اُٹھنے والی ہر توانا آواز کو بھارت خاموش کرانے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ پاکستان ابتدا سے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوششیں کرتا آیا ہے، اُس کی کوششیں آج بھی جاری ہیں اور وہ اپنے موقف پر آج بھی قائم ہے۔ پاکستان عالمی فورم پر ہر کچھ عرصے بعد کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتاہے۔ اسی ضمن میں پاکستان نے کہا ہے کہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے طویل عرصے سے حل نہ ہونے کی وجہ ویٹو پاور ہے، پانچ مستقل ارکان کی تزویراتی مخاصمتوں اور ویٹو کے استعمال نے سلامتی کونسل کو مفلوج کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے ایک مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پانچ مستقل ارکان کی تزویراتی مخاصمتوں اور ویٹو کے استعمال نے سلامتی کونسل کو مفلوج کردیا ہے، سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ویٹو کے استعمال کا جواز پیش کرنے کے مطالبے پر مبنی تاریخی قرارداد کی پہلی سالگرہ کے موقع پر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل کو زیادہ موثر بنانے کے لیے اس کے پانچ مستقل ارکان کو حاصل حق استرداد کو کونسل میں اصلاحات کا حصہ بنایا جائے۔ کونسل کے مستقل ارکان کو حاصل ویٹو پاور کی وجہ سے ہی کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات کو حل نہیں کیا جاسکا، کیونکہ کونسل میں ویٹو نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کو روکا اور اس میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ پاکستان نے بالکل درست موقف اختیار کیا ہے۔ ان کے حق استرداد کے باعث لاکھوں کشمیری آزادی کے حق سے محروم اور بدترین مظالم کا سامنا کررہے ہیں۔ پانچ مستقل ارکان کی تزویراتی مخاصمتیں اور ویٹو پاور کے استعمال کے باعث آئے روز بڑے انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو رواں ماہ کی 21تاریخ کو 75سال مکمل ہوچکے، اس کے باوجود بھارت بزور طاقت کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور جوہری جنوبی ایشیا میں فلیش پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی خطے میں کسی بڑی تباہی کا باعث نہیں بن سکتی؟سلامتی کونسل کی قرارداد21اپریل 1948کو منظور کی گئی، جس کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی استصوابِ رائے کروانے کا پابند تھا، تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ مودی سرکار نے پاک بھارت تعلقات کے مرکزی تنازع کو حل کرنے کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا اور آج بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دُنیا کی سنگین ترین پامالیاں جاری ہیں۔کشمیر میں سوا لاکھ شہدا کے خون سے بھارتی فوج نے ہولی کھیلی، 11ہزار سے زائد کشمیری خواتین کی عصمت دری کی جا چکی ہے۔ایک لاکھ 65ہزار سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو جیلوں میں قید کیا جاچکا ہی جب کہ 7ہزار سے زائد کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔تحریکِ آزادی کشمیر کو دبانے کے لئے بھارت پیلٹ گنز، اجتماعی سزا، گھروں کی مسماری اور جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا آرہا ہے،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔فلسطین کے حال بھی مختلف نہیں۔ وہاں تو شیطان اسرائیل نے ظلم و ستم کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ کون سا ایسا ظلم ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا۔ بستیاں کی بستیاں تباہ کرڈالی گئیں۔ عبادت گاہوں تک کے تقدس کی پامالیاں معمول ہیں۔ کتنے ہی فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے مظالم پر حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے کہاں جا سوئے ہیں؟ جانوروں کے حقوق کے لیے آوازیں اُٹھانے والے کہاں چھپے بیٹھے ہیں، جنہیں کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں پر بھارت اور اسرائیل کے مظالم دِکھائی نہیں دے رہے۔ ہم ان سطور کے ذریعے حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں سے گزارش کریں گے کہ خدارا بہت ہوچکا، اب ان مظالم کا خاتمہ کیا جائے۔ کشمیر اور فلسطین کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے پیش قدمی کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔ اتنے انسانوں کے ساتھ اتنی بدترین ناانصافیوں، مظالم اور جبر و ستم میں آپ کی خاموشی بھی ظالموں کا ساتھ دینے کی مترادف ہے۔ اب بیدار ہوجائیں اور کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کو ان مظالم سے نجات دلانے کے لیے اقدامات ممکن بنائیں۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے بھارت پر دبا ڈالا جائے اور اس کا منصفانہ حل ہر صورت میں کشمیریوں کی رائے کے مطابق نکالا جائے۔ اسی طرح فلسطین کا مسئلہ بھی خاصا پرانا ہے۔ اس کا حل بھی ناگزیر ہے۔ اب بھی حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں نے تاخیر کا مظاہرہ کیا تو تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

آٹا بحران سے نمٹنے کیلئے راست اقدامات ناگزیر

ملک عزیز میں بحران در بحران کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ یہاں اشیاء ضروریہ کے بحران کے حوالے سے صورت حال ہر کچھ عرصے بعد سامنے آتی ہے، جس سے اُس شے کی قیمت آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے پاکستان بھر میں آٹے کے بحران کی کیفیت کا سامنا ہے، یہ مصنوعی بحران ہے یا حقیقت میں گندم نایاب ہوچکی، اس حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں، تاہم اس کے نتیجے میں آٹے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ چاروں صوبوں میں صورت حال اس ضمن میں ناگفتہ بہ ہے۔ لوگ آٹے کے حصول کے لیے دربدر پھر رہے ہیں، انہیں آٹا اگر مل بھی رہا ہے تو اُس کی قیمت خاصی زیادہ ہے۔ اس حوالے سے تازہ اطلاع لاہور سے آئی ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق محکمہ خوراک پنجاب نے 11سو فلور ملز کا سرکاری گندم کوٹہ معطل کر دیا، لاہور کی اوپن مارکیٹ میں پرائیویٹ گندم کے پرمٹ بھی بند کر دئیے گئے، فلور ملوں نے اوپن مارکیٹ سے گندم کی خریداری کے باعث 10کلو اور 20کلو آٹے کے تھیلے کی نئی قیمت مقرر کردی۔ ڈی سیز نے پرائیویٹ پرمٹ دینے سے بھی انکار کر دیا، لاہور کی 80فلور ملز میں سے 20بڑی ملز کے پاس کچھ روز کے گندم ذخائر باقی رہ گئے۔ فی کلو کھلے آٹے کی قیمت 115سے بڑھ کر 128 روپے ہوگئی جب کہ شہر کے متعدد سٹورز پر دس اور20کلو آٹے کا تھیلا دستیاب ہی نہیں جب کہ 15کلو آٹے کا تھیلا 2250روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ مہنگا آٹا خریدنے کے لیے بھی شہریوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں، لاہور کو دو لاکھ 20کلو آٹے کے تھیلے کی ڈیمانڈ ہے، شہر میں صرف ایک لاکھ 20کلو آٹے کے تھیلوں کی سپلائی کی گئی ہے، دس کلو آٹے کا تھیلا مکمل نایاب ہوگیا ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے، آٹا ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے، صرف لاہور یا پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں آٹا نایاب ہے اور اس کی قیمتیں خاصی زیادہ وصول کی جارہی ہیں۔ سندھ میں آٹا 140روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ بلوچستان میں بھی لگ بھگ یہی قیمت وصول کی جارہی ہے جب کہ کے پی کے میں بھی 140۔145روپے آٹے کی فروخت جاری ہے۔ پنجاب سے 130روپے آٹا فی کلو فروخت کی اطلاعات ہیں۔ آٹا نایاب ہونے سے ذخیرہ اندوز خوب خوب فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آٹے کی کی قلت اور قیمت پر کنٹرول کرنے کے لیے راست اقدامات ممکن بنائے۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں کی جائیں۔ ان کارروائیوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اسی طرح آٹے کی سہل دستیابی کے لیے حکومت انتظامات کرے۔ اس بحرانی کیفیت کا توڑ کرنے کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ اگر واقعی ملک میں گندم اور آٹا نایاب ہیں تو بیرون ملک سے اس کی درآمد کے لیے کوششیں کی جائیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button