Editorial

سیاست پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کیوں؟

 

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے مطابق ان کا لانگ مارچ کل بروز جمعہ ، لبرٹی چوک لاہورسے شروع ہو گااور براستہ جی ٹی روڈ، اسلام آباد پہنچے گا۔عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد لڑائی نہیں کرنے جا رہے ہیں، نہ ہم نے ریڈ زون میں جانا ہے۔ یہ الیکشن نہیں کرائیں گے، اس لیے لانگ مارچ کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں ارشد شریف کے قتل کا بھی ذکر کیا اور اِس حوالے سے کئی باتیں کہیں جو سب ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج نے حکومت سے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے اور الزامات لگانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی جانب سے حکومت کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف کی موت کی تفصیلی تحقیقات کی جائیں۔ الزامات لگانے والوں کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس واقعہ پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں اور کچھ لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اداروں پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر مکمل تحقیقات کروائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس سانحہ کو بنیاد بنا کر من گھڑت الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اِس اندوہناک واقعہ کی اعلیٰ عدالتی کمیشن سے تحقیقات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کے حقائق قوم کے سامنے لائیں گے اور یقین دلاتا ہوں کہ شفاف تحقیقات کرائی جائیں گی اور اپنے تازہ ٹویٹ میں انکا کہنا ہے کہ عمران نیازی خطرناک کھیل کھیل رہا ہے، وہ ارشد شریف کی وفات پر سیاست کر رہا ہے۔عمران نیازی ریاستی اداروں کی ساکھ پر حملے کر رہا ہے، وہ بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے صبر سے کام لے اور جوڈیشل کمیشن کے نتائج کا انتظار کرے۔پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب میں عمران خان نے بتایا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف سے کہا تھا کہ ملک سے باہر چلے جاؤ، خبر ملی تھی کہ ارشد شریف کو مارنے لگے ہیں، ارشد شریف کے گھر کے باہر گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ارشد شریف کا جسد خاکی پاکستان پہنچ چکا ہے اور ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق آج اُن کی اسلام آباد میں تدفین ہوگی۔ ارشد شریف کے قتل کی خبر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیلی لیکن ملک میں زیادہ تشویش پھیلی کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں
تھا کہ ایسی خبر نذر سماعت ہوسکتی ہے اور پھر ایسی کج بحثی شروع ہوئی جس نے اِس معاملے پر توجہ ظاہر کرنے والوں کو اُلجھن سے نکالنے کی بجائے مزید اُلجھن میں ڈال دیاہے اور اسی دوران عمران خان نے بالآخر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے اور وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ارشد شریف کے قتل پر عمران خان سیاست کرکے خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ بالا سطور کے ذریعے ہم نے موجودہ حالات کی منظر کشی کی کوشش کی ہے اور اب ہم لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اُن حالات پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جو لانگ مارچ کے دوران اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے کے خدشات اور تشویش میں ہمیں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے لانگ مارچ کا واحد مقصد عام انتخابات کے اعلان کا حصول ہے جبکہ اتحادی حکومت بالخصوص وزیراعظم شہبازشریف نے ہی چند روز قبل بڑا واضح کہہ دیا تھا کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہوں گے اور قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے میں ابھی نو ماہ باقی ہیں۔ پس عمران خان وفاقی دارالحکومت کا رُخ ہی اسی لیے کررہے ہیں تاکہ وہ وفاقی حکومت پر دبائو بڑھاکر عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کراسکیں جبکہ اتحادی حکومت ہرگز ہرگز قبل ازوقت انتخابات سے انکاری ہے پس درمیان راستہ کیا ہوگا اور کون درمیان راستہ دکھائے گا، کیا دونوں فریقین کے لیے وہ ثالث قابل قبول ہوگا یا پھر تیر کا سامنا جگر سامنے کرکے ہی کیا جائے گا، کب تک دونوں میں ڈیڈ لاک موجود رہے گا، لانگ مارچ دھرنے میں تبدیل تو نہیں ہوگا؟ دھرنا ہوا تو کس کی یقین دہانی سے ختم ہوگا اور اگر تب درمیانہ راستہ نکالا جائے گا جو دونوں فریقین کے لیے قابل قبول ہوگا تو لانگ مارچ اور دھرنے سے پہلے کیوں نہیں؟حالات و واقعات اطمینان بخش ہونے کی بجائے تشویش بڑھارہے ہیں ، سنجیدہ پاکستانی تشویش میں مبتلا ہیں کہ معاشی صورتحال قابو میں آرہی ہے اور نہ ہی سیاسی، بلاشبہ معاشی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی قیادت کا سنجیدہ اور متفق ہونا ضروری ہے لیکن حزب اقتدار اِس معاملے پر لچک کا مظاہرہ کرتا ہے اور نہ ہی حزب اختلاف، پھر اسی اثنا میں ایسی تلخ باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو فریقین کے درمیان موجود خلیج کو مزید وسیع کردیتی ہیں۔ عمران خان پوری تیاری کے ساتھ کل اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے، یقیناً کل انہیں پچیس مئی والی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اب پنجاب میں اُن کی اپنی اتحادی حکومت ہے ، پس کارکنوں کی قبل از وقت گرفتاریوں اور پولیس کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں، ایسا ہی خیبر پختونخوا سے ہونا متوقع ہے کیونکہ وہاں بھی عمران خان کی حکومت ہے، پس تصادم اورٹکرائو کے خدشات تو بہرصورت موجود ہیں جو تشویش میں اضافہ کررہے ہیں کہ ایک طرف ہم معاشی بحران سے نکلنے کے دعوے تو کررہے ہیں لیکن ماہرین معیشت اب بھی تشویش ظاہر کررہے ہیں دوسری طرف عوام تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا سامناکررہے ہیں اور آئی ایم ایف مزید ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے، سیلاب نے ہماری کمر توڑ دی ہے اور لاکھوں انسان کھلے آسمان تلے پڑے مدد کے طلب گار ہیں لیکن کوئی ایسا باقی نظر نہیں آتا جو فریقین کو آمنے سامنے بٹھائے اور جلد ازجلد سیاسی بحران کے خاتمے کا اعلان ہو ، کیونکہ بیک ڈور رابطوں کی باتیں تو ہورہی ہیں لیکن اگلے ہی لمحے تندو تیز بیانات اوربڑے اعلانات سامنے آجاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین وہاں بھی کسی نتیجے پر پہنچنے سے انکاری ہیں۔ قریباً ایک دہائی پہلے جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بیک وقت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ میں مشترکہ موقف اپنایاگیا کہ لانگ مارچ یا دبائو کے ذریعے منتخب حکومت کا خاتمہ کرنا اچھی روایت نہیں اور یوں کوئی بھی وفاقی دارالحکومت کا رخ کرکے آئینی حکومت اور عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت کو گراسکتا ہے، پھر ایسا ہی موقف تب عمران خان کی جانب سے بھی سامنے آیا اور اپنے دور اقتدار میں عمران خان نے بارہا کئی مواقعوں پر کہا کہ ریاست کسی جتھے کے سامنے سرنڈر نہیں ہوگی اور نہ ہی ہونا چاہیے مگر اب وہ ایک بار پھر اسلام آباد کا رُخ کررہے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے وقت پارلیمان میں لانگ مارچ اور دھرنے کے خلاف واضح موقف اختیار کرنے والی پارٹیوں نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں لانگ مارچ کرکے اپنے ہی کہے کی نفی ثابت کی۔ یوں ہوتا تو یہ رہا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت برسراقتدا ہوتی ہے وہ لانگ مارچ یادھرنے کو ناجائز قرار دیتی ہے مگر جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تب اُسے لانگ مارچ اوردھرنا جائز، حلال اور جمہوری حق نظر آتا ہے اور بلاشبہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ نون کے راہنما مریم نواز اور حمزہ نواز۔ جمعیت علما اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور خود بلاول بھٹو بھی الگ الگ لانگ مارچ کی قیادت کرکے اسلام آباد کا رُخ کرچکے ہیں، بلکہ مولانا فضل الرحمن نے دو بار لانگ مارچ کیا اور پہلے لانگ مارچ کااختتام دھرنے کے آغاز سے کیا اور اُن کادعویٰ ہے کہ دھرنا انہوں نے بعض یقین دہانیوں پر ختم کیا۔ مختصر گذارش یہی ہے کہ ملک کے حالات مزید سیاسی انتشار کے قطعی متحمل نہیں ہوسکتے لیکن انتشار کم ہونے کی بجائے بڑھتا نظر آرہا ہے اور کوئی لانگ مارچ یا دھرنا خیر سگالی یا پھول بانٹنے پر اختتام پذیر نہیں ہوتا، پس دیکھو اور انتظار کرو، کی حکمت عملی کی بجائے سیاسی اور معاشی انتشار کو مزید پھیلنے سے روکنا چاہیے تاکہ ملک و قوم کا کم سے کم نقصان ہو کیونکہ جب فریقین کے فیصلے اٹل ہوں تو پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں نقصانات بھی اٹل ہوتے ہیں خواہ ان کا دائرہ محدود ہی کیوں نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button