Columnمحمد مبشر انوار

قیمت! … محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

خیر و شر کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہنے والی ہے تاوقتیکہ صور نہ پھونک دیا جائے، محشر میں حساب کتاب نہ ہو جائے اور اشرف المخلوقات کی حتمی تقدیر کا فیصلہ نہ ہو جائے ۔ بحیثیت مسلمان ،اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے،نبی آخرالزمانؐ کے امتی ہوتے ہوئے بھی ہم کس قدر غفلت کا شکار ہیں کہ اللہ کی آخری الہامی کتاب میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور اس کی آسائشیں بھی فانی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اس فانی دنیا کے حصول میں غفلت کا شکار ہیں۔ اسی دنیا کی فانی جاہ و حشمت، اقتدار و اختیار کو چمٹے اپنی آخرت کا داؤ پر لگارہے ہیں،یہ جانتے ہوئے بھی کہ خود کو بہت سے ناگزیرسمجھنے والے ،مٹی کے پتلے منوں مٹی تلے دفن ہیں ۔ایسے ناگزیروں کے واقعات ایک طرف قرآن کریم میں واضح بیان ہیں تو دوسری طرف ہماری حالیہ تاریخ میں ایسے بہت سے نابغہ روزگار سمجھنے والے زیر زمین کیڑوں کی خوارک بن چکے لیکن اس کے باوجود ہمارے اندر کا فرعون ہم سے ہمیشہ جیت جاتا ہے اور ہم اختیارو اقتدار میں اپنے ناقدین و مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے کے علاوہ ان کی زندگیاں تک چھیننے سے گریز نہیں کرتے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی کے اپنے طے شدہ اصول و ضوابط ہیں اوران سے وابستہ افراد ان اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے ہی ترقی کرتے ہیں ،ان ترقی کرنے والوں میں کچھ ’’نیک نام‘‘ مشہور ہوتے ہیں تو کچھ’’بدنام‘‘ ہوتے ہیں۔ بدنام ہونے والوں کی اکثریت کو چنداں اس کی فکر اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بدنام اگر ہوئے تو کیا نام نہ ہو گا جبکہ نیک نام ماہرین ہمہ وقت اپنی کمائی ہوئی ساکھ کی حفاظت اپنے بچوں سے بڑھ کرکرتے ہیں کہ زندگی بھر کی کمائی کسی ایک غلطی کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں ،اپنی پوری احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں ان سے انجانے میں بھی اپنے شعبہ سے متعلق کسی اصول،کسی ضابطے یا کسی اخلاقی قدر کی روگردانی نہ ہو جائے مبادا ان کی ساکھ خراب ہو۔
دنیا بھر میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے اور اس پیشہ سے وابستہ افراد، بالخصوص رپورٹرز جو تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں، دو دھاری تلوار پر چلتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلسل لگن اور محنت سے اپنے شعبہ کی آن اور شان بڑھاتے نظر آتے ہیں۔صحافت کیلئے پاکستان میں کبھی بھی دوستانہ ماحول نہیں رہا اور ریاست میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد ایک طرف اپنے میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ،دوسری طرف اس مافیا سے کہ جس کے خلاف وہ اپنی تحقیقات کرتے ہیں اور تیسری طرف انتظامیہ سے کہ جن کی ملی بھگت سے مافیاز ملک وقوم سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ایک صحافی کا بنیادی فرض ہی یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ہونیوالی بے ضابطگیوں ،جرائم اور عوامی مسائل سے حکومت اور انتظامیہ کو بروقت آگاہ کرے اور معاشرے کی آنکھ کا فرض نبھائے، لیکن افسوس کہ
پاکستان میں بہت کم صحافی ایسے ہیں جو اس معیار پر پورااترتے نظر آتے ہیں کہ دوسرے شعبہ جات کی طرح اس میں بھی کئی کالی بھیڑیں موجود ہیں،جو اپنے فرائض میں غفلت کی مرتکب ہیں یا ذاتی پسند و ناپسند کے خول میں مقید ہیں۔بطور صحافی ہونا تو یہ چاہیے کہ جو سچ ہے،اس کو بلا کم و کاست ،اپنی ذاتی پسند ناپسند کا تڑکہ لگائے بغیر عوام کو بتایا جائے نہ کہ اذہان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ یا تجزیہ ہی ایک بنیادی شرط ہے کہ جس پر کسی بھی صحافی کو ماپا جا سکتا ہے اور عوام الناس کی اکثریت بھی اب ایسے صحافیوں سے بخوبی واقف ہیں جن کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ ان کی غیرجانبداری یا جانبداری کی خود گواہی دیتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں سچ لکھنے کی پاداش میں کتنے صحافی ایسے ہیں جو صحافت کے افق پر چمکنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار گئے اور بدقسمتی سے یہ ہمارے ملک میں ہی ہو رہا ہے جبکہ بیرونی دنیا اس پر حیران ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں کہ اپنے ملک کے چیدہ چیدہ افراد کو کس طرح رسوا کرکے ان کی زندگیاں چھین رہے ہیں۔
رجیم چینج آپریشن میں ایک نامور صحافی کے ایک سوال نے اس کیلئے زمین تنگ کردی،سوال دانستہ یہاں تحریر نہیں کررہا کہ صحافت ابھی تک اتنی آزاد نہیں کہ اس سوال کو مکرر لکھ بھی سکوں اور نہ یہ یقین ہے کہ یہ سوال شائع ہو بھی جائے گاالبتہ اس سوال سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے اور اس سوال کا جواب جاننے کیلئے بے چین و بے تاب بھی ہے۔ تین حروف پر مشتمل اس سوال نے اس قدر ہلچل مچائی کہ بادشاہ گروں کی نیند حرام کردی پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک عام سے شہری کی نیند پرسکون رہتی ؟اسے مجبوراً سچ پوچھنے کی پاداش میں ملک چھوڑنا پڑا،خبریں تو یہ بھی ہیں کہ یو اے ای میں بھی اس کو سکون سے رہنے نہیں دیا گیا بلکہ وہاں کی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ یو اے ای سے نکلنے کے بعد ،واحد ملک کینیا ایسا تھا کہ جو اسے ائیرپورٹ پر ویزا جاری کر سکتا تھا،ویسے تو یہ سہولت ایک زمانے میں سری لنکا میں پاکستانیوں کیلئے میسر تھی اب نہیں معلوم کہ پاکستانیوں کو ائیرپورٹ پر ویزا میسر ہے یا نہیں،خیر وہ مرد قلندر کینیا جا پہنچا۔ایسا شخص،جو ہر وقت پاکستان کیلئے کمربستہ نظر آیا،جس کا بھائی اور باپ فوج میں اپنی خدمات دیتے رہے اور ہر اس بات پر ڈٹ جاتا ،جو اس کی نظر میں پاکستان کے مفاد میں ہوتی ۔بطور صحافی اس کے ذرائع بھی یقینی طور پر ریاستی اکابرین سمیت بہت سے ریاستی مشینری سے وابستہ تھے،جو اسے خبریں پہنچاتے اور جن کی اپنے طور پر تحقیق وچھان پھٹک کے بعد اپنے قلم یا اپنی زبان پر لاتا۔موجودہ حکومت کے خلاف اس کا ،اور ایسے ہی کئی اور صحافیوں کا ڈٹ جانابھی انہی معلومات کی بنیاد پر تھا کہ چند سال قبل موجودہ حکمرانوں کے خلاف انہیں بہت سے ثبوت و شواہد مہیا کئے گئے، جن کی روشنی میں یہ مردان صحافت اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے اور موجودہ حکمرانوں کی لوٹ مار پر مسلسل احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف ان کو جرائم کے تمام تر ثبوت دکھانے کے باوجود،بادشاہ گروں کی ترجیحات بدل گئی اور نظر کرم موجودہ حکمرانوں پر ہوئی تو مطالبہ یہ ہوا کہ ان کے خلاف بات کرنا بند کردی جائے اور انہیں سکون سے امور حکومت چلانے دئیے جائیں لیکن یہ سر پھرے،وطن کی محبت میں سرشار،اس نئے حکم کی تعمیل کرنے سے گریزاں نظر آئے ۔ طاقتوروں کو عام شہریوں کے یہ تیور کب پسند آتے ہیں؟ڈاکٹر شیریں مزاری نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کے سرکی قیمت مقرر کر دی گئی تھی اور عمران ریاض خان چند دن پہلے اپنی ایک مختصر ویڈیو بیان میں بھی ان کی زندگی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کر چکے تھے اور یہاں تک کہا تھا کہ ارشد شریف ہماری ریڈ لائن ہے، لیکن ہوا کیا؟صبح یہ افسوسناک خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ کینیا کی پولیس نے غلط فہمی؍غلط اطلاع پر ارشد شریف کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا ہے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ارشد شریف مرحوم کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک طرف انہیں یو اے ای سے جبراً نکلوایا گیا تو دوسری طرف وہ اپنی کسی ویڈیو کیلئے کینیا گئے تھے،واللہ اعلم حقیقت کیا ہے لیکن بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے اور بنی آدم کو موت اس کے مقام تک لے جاتی ہے۔ جو تصاویر ارشدشریف کی مختلف ذرائع سے موصول ہوئی ہیں،ان کے مطابق جو گولی ان کے سر میں لگی ہے،وہ کم ازکم پولیس گردی سے زیادہ،کسی پیشہ ور گروپ کی کارستانی لگتی ہے کہ جس کا واضح مقصد یہی ہے کہ ’’ٹارگٹ‘‘کسی بھی صورت زندہ نہ بچے۔اس طرح کی انتقامی کارروائی کے پس پردہ تو یہی نظر آتا ہے کہ قحط الرجال کے اس دور میں،ذاتی اناؤں کا کھیل،عدم برداشت اور اپنے گھناؤنے کرتوت چھپانے کیلئے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والے ،اپنے جنون کی ’’قیمت‘‘ اپنے خون سے ادا کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button