Editorial

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بڑا اقدام

 

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی گرتی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف )سے قرض کی جلد فراہمی میں تعاون کے لیےواشنگٹن سے رابطہ کیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف نے کہاہے کہ وائٹ ہاؤس آئی ایم ایف پر دو اشاریہ ایک بلین ڈالرکی قسط فوری جاری کرنے کے لیے دباؤڈالے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے رواں ہفتے کے آغاز میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے فون پر بات کی ،وائٹ ہاؤس اور محکمہ خزانہ سے اپیل کی کہ وہ آئی ایم ایف سےقریباً دو اشاریہ ایک بلین ڈالر کی فوری فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آئی ایم ایف نے 13 جولائی کو قرض کی فراہمی کے لیے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول کی منظوری دے دی تھی اور اس کثیرالجہتی قرض کی فراہمی ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے حتمی منظوری کے بعد عمل میں آنی تھی لیکن اگلے تین ہفتوں کی چھٹی کے باعث آئی ایم ایف بورڈ کا کوئی اجلاس نہیں ہونااور آئی ایم ایف کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ پاکستان کے لیے قرض کی منظوری کے اعلان کے لیے کوئی ٹھوس تاریخ طے نہیں کی گئی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے واشنگٹن سے رابطے سے ثابت ہوتاہے کہ پاک فوج عسکری محاذ کےساتھ ساتھ اب معاشی محاذ پر بھی قوم کو بحران سے نکالنے کے لیے میدان میں آگئی ہے کیونکہ معیشت کی موجودہ صورتحال کسی لحاظ سے بھی اطمینان بخش نہیں اور معاشی بحران کی وجہ سے ہر روز صورتحال بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔ معاشی ماہرین قرض کی فراہمی میں تاخیر کی وجوہ ملک میں سیاسی بے یقینی ،فیصلہ سازی میں تاخیر اور مالیاتی سطح پر پالیسیوں میں بعض کوتاہیوں کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہی وجوہات بیرونی رقوم کی فراہمی معطل ہوئی ، بیرونی قرضے کی واپسی کی رقوم بڑھتی رہیں اور فروری سے اب تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی بھاری کمی آئی۔یہ مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں تاہم اس معاشی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی پوزیشن دیگرممالک کی نسبت بہتر ہے۔قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید بھی کہہ چکے ہیں کہ عالمی معیشت میں کئی بحران بیک وقت ابھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور پاکستان بھی اس طوفان کی زد میں ہے ، اگرچہ یہ دباؤ زیادہ تر عالمی وجوہات کی وجہ سے ہے تاہم اس میں ملکی عوامل بھی شامل ہو گئے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ، 15 برسوں کی بلند ترین مہنگائی، زر مبادلہ ذخائر میں کمی، روپے کی قدر میں کمی اور ہمارے بین الاقوامی بانڈز کے پریشان کن حد تک بڑھ جانے والا منافع اس طوفان کی نشاندہی کرتے ہیں اسی لیے پاکستان کے لیے وقت کی انتہائی اہمیت ہے روپے کی بے قدری سے ڈالر مہنگا ہورہا ہے، ملک کے پاس غیر ملکی ذخائر 9 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں، جو دو ماہ کے درآمدی بلوں کے لیے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک چونکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں اِس لیے موجودہ معاشی حالات میں امریکہ کی کوشش سے پاکستان کو قرض کی جلد فراہمی ممکن ہوسکتی ہے کیونکہ امریکہ اِس فنڈ میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے ۔ اگرمتعدد سینئر پاکستانی حکام حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں امریکہ اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈر ممالک سے ملاقات کرچکے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلوں کے وقت کے بارے میں خدشات کی نشاندہی کی جاسکے اور پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات پر پاکستان کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے بات چیت کی جائے۔مگر ان ملاقاتوں میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو واشنگٹن کی توجہ مبذول کروانا پڑی کیونکہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے جلد از جلد فنڈنگ ہونی چاہیے ،کرنسی اور غیر ملکی ذخائر کی صورتحال تشویشناک ہے اور بعض معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خدشہ غالب ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے فوری ادائیگی ہوجاتی ہے تو اِس سے آئندہ 12ماہ کے لیے فنانسنگ کی ضروریات پوری کی جائیں گی، اسی لیے پاکستان کو جلد فنڈنگ ملنی چاہئے، معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت اسلام آباد سعودی عرب اور چین کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے لیکن ابھی تک متذکرہ اطراف سے کوئی مثبت پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کو فنڈنگ ہونے سے پاکستانی معیشت میں استحکام لانے میں مدد ملے گی لیکن بظاہر وہی وجوہات ہیں جو معاشی ماہرین بار بار بیان کررہے ہیں کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں اور اسی لیے دوست ممالک خصوصاً آئی ایم ایف فنڈز دینے سے گریزاں ہے کہ نجانے آئندہ صورتحال کیا ہو۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی گرتی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے قرض کی جلد فراہمی میں تعاون کے لیےواشنگٹن سے رابطہ کیا ہے تو سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ معاشی استحکام کے لیے اُن کی کاوشیں تسلی بخش ہیں بھی نہیں اور کیوں آئی ایم ایف اور دوست ممالک ابھی تک فنڈز جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہماری رہنمائی کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر اسی طرح ملک چلتا رہا تو اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی صورتحال کیا ہوگی اور ہم بطور پاکستان کہاں کھڑے ہوں گے؟ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو معاشی استحکام کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور موجودہ سیاسی عدم استحکام کا جلد ازجلد خاتمہ کرنا چاہیے تاکہ معاشی بے یقینی کی صورتحال ختم ہو اور دوست ممالک بھی ہماری مدد کرنے سے گریزاں نہ ہوں۔ ہم ایک بار پھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اِس اہم اقدام کو سراہتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ملکی معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے اور توقع ہے کہ اب آئی ایم ایف جلد ازجلد فنڈز ریلیز کردے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button