Columnمحمد مبشر انوار

سیاسی بلوغت .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل ہزاروں برس گذرنے کے بعد اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے وقوع پذیر ہوئی تا کہ معاشرے سے جس جس لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ختم کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے یہ قانون سو فیصدی ختم نہیں ہو سکا کہ انسانی جبلت میں اس کے جراثیم کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتے اور جیسے ہی حالات سازگار ہوں،لامحدود اختیارمیسر ہو،وسائل پر دسترس ہو تومجوزہ انسانی جبلت عود کر آتی ہے اور اسے انسان سے فرعون بنا دیتی ہے۔ فرعونیت میں انسان ایسے ایسے محیرالعقول کارنامے سرانجام دیتا ہے کہ اس کی عقل پر شکوک و شبہات کی پرچھائیاں واضح نظر آتی ہیںبلکہ اس کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے اور معاشرتی زندگی کو اس بری طرح سے روندتا نظر آتا ہے کہ معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی ،قانون سے بالا دستی کی خواہش اور تمنا ہی فقط آرزو دکھائی دیتی ہے۔زمانہ قدیم میں اور موجودہ دور میں بھی دور بادشاہت میں زبان سے ادا کئے گئے الفاظ قانون کادرجہ رکھتے ہیں لیکن موجودہ دور میں بھی ایسے شاہی قوانین کے پس منظر میں عوامی مسائل ،موجودہ حالات کی ضرورت اور سب سے بڑھ کر ریاستی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بادشاہت میں قوانین کی تشکیل کی جاتی ہے تا کہ معاشرے میں ہیجانی کیفیت بپا نہ ہو،کمزوروں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتاہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں بھی ایسے ضدی،ہٹ دھرم اور بے عقل لوگ کرہ ارض پر پائے جاتے ہیں کہ جن کے نزدیک قانون صرف وہی ہے،جو ان کے سامنے گھر کی باندی کی مانند ہاتھ باندھے کھڑا ہو،موم کی ناک کی طرح اسے جب چاہا جیسے چاہا جدھر چاہا موڑ دیا جائے۔ اداروں کے اہلکار ریاست کی بجائے ،ان کے ذاتی غلام ہوں اور ان کی منشاء کے مطابق امور سلطنت سرانجام دیں نہ کہ اس ریاستی حلف کے مطابق جو ان سرکاری اہلکاروں نے اٹھا رکھا ہے۔معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی قوانین کے احترام میںپائی جاتی ہے اور بارہا اس امر کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ مہذب معاشروں ،ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کو بغور دیکھیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہاں کے شہریوں نے جو قوانین تشکیل دے رکھے ہیں،ان قوانین کی پابندی سب پر لازم ہے حتی کہ حکمران طبقات بھی اس سے مبرا نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بطور حکمران ان شخصیات کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے کہ ان کی حیثیت ایک رول ماڈل کی سی ہے اور عوام کسی صورت یہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ان کے حکمران کسی بھی قسم کی قانون شکنی یا چھوٹے سے چھوٹے جرم میں ملوث ہوں۔ مزید یہ کہ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی کسی قانون شکنی کا سامنا کرنے کی بجائے،اداروں پر اثرانداز ہوں ،ڈرائیں دھمکائیں یا اہلکاروں سے ذاتی عناد ،بغض یا دشمنی کا ڈول ڈالیں۔ان اقوام میں ہر ادارے کا کردار متعین ہے اور ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کا پابند ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ ان معاشروں میں کوئی بھی ادارہ اپنے طے کردہ حدود سے تجاوز کرے اور اگر کوئی ایسی مثال سامنے آ جائے تو قانون کے مطابق عملدرآمد ہوتا ہے اور مستقبل میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ قانون شکنی کرے۔
کسی بھی معاشرے میں قوانین پر عملدرآمد کی صورت ،قانون شکنی کرنے والوں کو سزا و جزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا نظر آتا ہے۔یوں دیکھا جائے تو معاشرے میں اعتدال ،جرائم سے پاک معاشرے میں عدالتی نظام ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے بشرطیکہ عدالتی نظام بغیر کسی خوف و جبر کے آزادانہ فیصلے صادر کررہا ہو،قانون کے مطابق بلا امتیاز کمزور کی داد رسی کر رہا ہو،ظالموں ،جابروں کی گردنوں میں قانون کا رسہ بغیر کسی خوف کے ،عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ،گلوں میں ڈال کر حق تلفیوں کا ازالہ کر رہا ہو۔ایسے عدالتی نظام کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے میں جرم کرنے والے افراد اس سے خوفزدہ نہ ہوں اور جرائم سے باز نہ رہیں،اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ایسے عدالتی نظام کی موجودگی میں کمزوروں کی حق تلفی ہوتی ہو،حتی کہ ایسے نظام کی موجودگی میں جرم کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ سب کے حقوق محفوظ ہوں۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسی صورت میں اس ادارے کی ضرورت ہی کیا ہے،بلاشبہ یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہو سکتی ہے کہ جس میں شہریوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو اور عدالتی نظام کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن ایسا ممکن نہیں اور اس ادارے کی انتہائی پر امن اور قانون پرست معاشرے کے باوجود ضرورت موجود رہتی ہے کہ اس کے بغیر معاشرے کے بگڑنے کا احتمال رہتا ہے۔
بالعموم تصور یہی ہوتا ہے کہ عدالتیں قوانین کی روشنی میں صحیح فیصلے صادر کریں گی تاہم بدقسمتی سے پاکستانی عدالتوں کا ریکارڈ اس حوالے سے قطعی تابناک نہیں رہا اور یہاں ایک اہم ترین مقدمہ میں نظریہ ضرورت رائج ہو گیا،جس کے بد اثرات سے پاکستانی عدلیہ گہنا گئی۔ آج پاکستانی عدالتوں کا شمار عالمی نظام انصاف میں بہت نیچے ہے ،اس میں قصوروار کون ہے،اس کا فیصلہ کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اولا عدالتوں میں تعیناتیوں اور تقرریوںکا طریقہ کار اشرافیہ کے زیر اثر رہا،جس نے عدلیہ کے لیے مسائل کھڑے کئے۔ بعدازاں عدلیہ کے فیصلے ،کردار ایسا رہا کہ اس پر انگلیاں اٹھتی رہی،نتیجہ یہ کہ جو تکریم عدلیہ اور ججز کا حق تھا،وہ اس سے محروم رہے۔ بالعموم یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جج نہیں بلکہ اس کے فیصلے بولتے ہیں اور بہرطور فیصلوں پر تنقید کا حق حاصل ہے لیکن آج کی صورتحال قدرے مختلف ہے کہ معاشرے کے ذہین ترین افراد جو منصب عدل پر فائز ہیں،ان کے فیصلوں پر تنقید تو ہوتی ہی ہے اب براہ راست ان کی ذات ہدف تنقید ہے۔ ججز کی ذات پر جو کیچڑ اچھالا جا رہا ہے،جو ناقابل تحریر ہے کہ ایسی ناشائستہ زبان استعمال کی جارہی ہے کہ الامان الحفیظ،بخدا اگر کوئی کمزور شخص یہ الفاظ ججز کے بارے ،ان کے فیصلوں کی روشنی میں کہے،تو یقینی طور پر توہین عدالت کا مرتکز ہو لیکن سوشل میڈیا اس وقت ایسی مغلظات سے بھرا پڑا ہے اور اس گندی تشہیر میں سیاسی جماعت کی صف اول کی خاتون رہنما اور ان کی سیاسی جماعت کے ارکان شامل ہیں۔ ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتا ہوں جو بظاہر انتہائی تعلیم یافتہ ہیں لیکن اس رو میں اس قدر بہک چکے ہیں کہ ذاتی شخصیت کو پس پشت ڈال کر سیاسی مقاصد کے لیے ،سیاسی جماعت کے گندے بیانئے کی تشہیر کی خاطر،بد زبانی پر اتر آئے ہیں۔ حالانکہ یہی سیاسی جماعت ہے کہ جس کے روابط عدلیہ کے معزز ججز کے ساتھ،حریف کو سزائیں دلوانے کے یے ،ثابت شدہ ہیں کہ کس طرح ذاتی مفادات کے حصو ل کی خاطر،عدل اور عدلیہ کے وقار کو داؤ پر لگایا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح ،من پسند فیصلوں کے لیے عدالت عظمی پر حملہ کیا گیا،ذاتی کرپشن کوچھپانے کے لیے کس طرح لاؤ لشکر کے ساتھ نیب میں حاضرہوئی،کس طرح ریاستی مشینری کے ساتھ ہنگامہ آرائی کی اور کس طرح ببانگ دہل اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کو ماننے سے انکار کیاجبکہ حق میں آنے والے فیصلوں پر انہی ججزپر داد و تحسین پیش کی۔
سیاسی قائد ہمیشہ عوام کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں،سیاسی قائد ہی اپنے کارکنان کی تربیت کرتا ہے،اگر سیاسی قائد چاہے تو اپنے کارکنان کو ملک کا ذمہ دار شہری بنا دے اور اگر چاہے تو بد امنی کی طرف مائل کر دے۔ اس وقت عملاً سیاسی قائد اپنے کارکنان کو ہلا شیری دے کر،بد امنی کی طرف مائل کر رہا ہے، اداروں کے خلاف محاذ آرائی کرکے من پسند فیصلے کروانا چاہتا ہے (جو ہمیشہ سے وطیرہ او رطریقہ کار رہا ہے)،سیاسی شہادت کی متمنی قائد ہر حد سے گذرنا چاہتی ہے لیکن اس کوشش میں ایک بات واضح ہے کہ گذشتہ تقریبا چار دہائیوں سے ملک پر قابض یہ سیاسی جماعت آج بھی محاذ آرائی،دھونس،دھاندلی اور دھمکیوں سے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے اور ہنوز سیاسی بلوغت سے دور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button