Editorial

واشنگٹن سے خوشخبری کا انتظار

 

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین پیشگی شرائط اور تمام اقدامات پر معاملات طے پاگئے ہیں تاہم سٹاف کی سطح کا معاہدہ نہیں ہوسکااور آئی ایم ایف مشن نےمعاہدہ کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کی منظوری سے مشروط کیا ہے مگر وفاقی سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب نے توقع ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کی منظوری کے بعد جلد سٹاف سطح کا معاہد ہ طے پاجائے گا تاہم کچھ معاملات پر تھوڑااختلاف ہے اور ان نکات پر فیصلہ کرنا آئی ایم ایف کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، جن معاملات پر اختلاف ہے، ان سے واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کو آگاہ کیا جائےگا اور ہیڈکوارٹر کی منظوری کے بعدجلد معاہد ہ ہوگا آئی ایم ایف مشن نے یقین دہانی کرائی ہےکہ سٹاف سطح کا معاہدہ جلد ہو جائے گا۔جمعرات کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین قرضہ پروگرام کی بحالی اور اگلی قسط کےلیے 10روزہ مذاکرات مکمل ہوئے اور آئی ایم ایف نے اعلامیہ کو منظوری کےلیے واشنگٹن میں ہیڈکوارٹر بھیجا ہے جس کی منظوری کے بعد بیان جاری کر دیا جائے گا،یعنی مکمل اتفاق رائے پر معاہدہ ہوگا جس کے پندرہ سے بیس دن کے اندر بورڈ ایک ارب انیس کروڑ کی قسط کی منظوری دے گااور حکومتی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ بجلی اور گیس کے بلوں میں غریب طبقے کے لیے سبسڈی برقرار رہے گی۔ آئی ایم کا وفد قریباً دس روز تک پاکستان میں موجود رہا، وفد کو ہم نے ہر لحاظ سے عوام کو نچوڑنے کے لیے سوچے ہوئے اقدامات سے آگاہ کیا بلاشبہ ہم مجبور ہیں کیوں کہ قرض چاہیے لہٰذا ہم نے انہیں آبدیدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہوگی کیونکہ ہمارے معاشی حالات ہی ایسے ہیں، بیرونی قرضوں کی مد میں بھاری ادائیگیوں کے باعث سٹیٹ بینک کے ذخائر دو ارب اکانوے ڈالر رہ گئے ہیں البتہ ڈالر قریباً پونے تین روپے کم ہوا ہے لیکن آئی ایم وفد کی واپسی اور معاہدے سے متعلق آنے والے دنوں میں ہونے والی قیاس آرائیوں کا نجانے ڈالر کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے کیونکہ آئی ایم وفد خیر کی کوئی خبر تو سناکر نہیں گیا لیکن مذاکرات کرنے والی ہماری معاشی ٹیم کو یقین ہے کہ جلد معاہدہ ہوجائے گا۔ بہرکیف نو ہزار کے لگ بھگ کنٹینرز بندرگاہ پر پڑے ہیں کیونکہ ادائیگیوں کے لیے پیسے نہیں۔ خام مال فیکٹریوں اور کارخانوں تک نہ پہنچنے سے ان کی تالہ بندی ہو رہی ہے اور لوگ بیروزگار ہورہے ہیں۔ ڈالر کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے، غرضیکہ کچھ بھی ٹھیک اور قابل اطمینان نہیں لگ رہاحالانکہ مفتاح اسماعیل کے بعد اسحق ڈار کو باہر سے لاکرمعاشی اکھاڑے میں بڑے اہتمام کے ساتھ اتارا گیا تھا لیکن معاشی چیلنجز نے انہیں بھی چاروں شانے چت کردیا ہے، معاشی حالات جس قدر پریشان کن تھے اُس سے کہیں زیادہ
بڑے دعوے اور اُمیدیں تھیں کہ اسحق ڈار تجربہ کار وزیرخزانہ ہیں اِس لیے وہ ڈالر کو پٹخ دیں گے، پھر اسحق ڈار بھی دعویدار تھے کہ انہیں آئی ایم ایف کو ڈیل کرنا آتا ہے اور ڈالر کی اصل قیمت دو سو روپے کے لگ بھگ ہونی چاہیے مگر اِن کی تشریف آوری کے بعد اب ڈالر تین سو کے قریب پہنچنے کی کوشش کررہا ہے ،چونکہ ہمارے یہاں حصول اقتدار کی جنگ کو سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگوں سے بڑا سمجھا جاتا ہے لہٰذا معاشی مسائل ہوں یا سنجیدہ نوعیت کے داخلی مسائل۔ ہم اِن کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے جتنی سنجیدگی سے سیاسی معاملات کو لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اور دنیا آگے نکل گئی ہے۔ ہم نے کسی کو کیا آنکھیں دکھانی ہیں ہم قرض کے بغیر ایک دن نہیں چل سکتے۔ کج بحثی اور سیاسی داو پیچ ہی ہماری مہارت ہیں۔ ہم چین، ملائیشیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور تو اور، بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیتے تو آج ہماری معاشی حالت یہ نہ ہوتی اور لوگ خودکشیوں پر مجبور نہ ہوتے۔ معیشت سے متعلق پوری قوم پریشان ہے کیونکہ حکمرانوں کی معاشی غلطیوں کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر آرہا ہے، ذرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ لین دین کے معاملے پر دنیا ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ملک کے اندر خوراک یا تو دستیاب نہیں یا پھر بے حد مہنگی ہونے کی وجہ سے صارفین کی پہنچ سے باہر ہیں۔ آنے والے دنوں میں بجلی، گیس اور ایندھن کی قیمتیں بڑھیں گی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آئی یم ایف سے معاہدے کے بعد مہنگائی کی ایک اور لہر آئے گی پھر لوگ بیروزگار بھی ہوں گے اور خودکشیوں پر مجبور بھی۔ آج ہم جس مشکل صورتحال سے دوچار ہیں الفاظ میں اِن کا بیان ممکن نہیں لیکن جیسے ہی تصور کرتے ہیں لرزہ طاری ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس بیرونی دنیا سے اشیائے ضروریہ یہاں تک کہ انتہائی اہم نوعیت کا دفاعی سازوسامان خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس کے سستا ہونے کے حکمران دعوے دار ہوں۔ مگر بطور عوام ہم کہہ سکتے ہیں سن سکتے ہیں اور برداشت کرسکتے ہیں اور یہی کچھ ہم کررہے ہیں، ہر نیا آنے والا پہلےوالے کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے نجانے کون ایسا ہوگا جو اپنی غلطیوں کا ٹوکرا اٹھاکر اعتراف کرے گا، بعض دانشور تو مشورہ دیتے ہیں کہ سیاست دانوں سے پوچھا جائے کہ ملک کا حقیقی مسئلہ معیشت ہے یا سیاست اور اگر معیشت ہی سنگین مسئلہ ہے تو پھر اِس پر سبھی فریق مطمئن کیوں نہیں ہیں،بہرکیف ہم گہری دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ قرضوں اور اناڑیوں کے تجربات کا بوجھ ہمیں اس دلدل میں مزید گاڑ رہا ہے۔ ہر لمحہ ہماری مزاحمت کم سے کم ہوتی جارہی ہے مگر پھر بھی چاروناچار ہم انہی پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہی چشم و چراغ ہمیں دستیاب ہیں اور یہی چراغ جلیں گے تو ’’روشنی‘‘ ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button