تازہ ترینتحریکخبریںسیاسیات

جنرل باجوہ کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رجیم چینج کا خود اعتراف کیا ہے، ان کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے۔

وائس آف امریکا (وی او اے) اردو کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ’اس وقت مسلم لیگ(ن)، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سب ایک طرف کھڑے ہیں اور ہماری حکومت بھی ان سب نے مل کر گرائی تھی‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’جنرل باجوہ نے ایک صحافی کو بیان بھی دیا ہے کہ ہم نے حکومت ان وجوہات پر گرائی تھی تو وہ رجیم چینج کا مان گئے ہیں، انہوں نے مل کر حکومت گرائی تھی اور اس کے بعد سب اکٹھے رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے 36 ضمنی انتخابات میں سے 29 جیتے ہیں اور ان سب کو ہرایا، لگ رہا ہے اب جو انتخابات ہوں گے یہ سب مل کر ہمارے خلاف کھڑے ہوں گے‘۔

سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہماری ایک ہی کوشش تھی کہ صاف اور شفاف الیکشن، یہاں صاف اور شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے لیکن الیکشن ہوسکتے ہیں‘۔

الیکشن کمیشن پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے، اسٹیبلشمنٹ اور پارٹیز ان کے ساتھ کھڑی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں اتنی جانب دار نگران حکومتیں نہیں بنیں، الیکشن میں دھاندلی کے لیے پولیس اور نیچے سارا عملہ لے کر آئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ آج عدالت کے اندر مقدمہ ہے اور لگ رہا ہے وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے لیے 90 دن سے آگے نہیں جائیں گے اور جب دو صوبوں میں، جو کہ 66 فیصد پاکستان ہے، یہاں الیکشن ہوگئے تو جنرل الیکشن کرانے پڑیں گے‘۔

اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ ’ابھی تو جنرل باجوہ کی پالیسیز چل رہی ہیں اور جنرل باجوہ نے خود کہہ دیا ہے انہوں نے حکومت گرائی تھی کیونکہ وہ جو بھی کہتے تھے کہ ملک کو خطرہ ہے، اس کے بعد جو حکومت لے کر آئے ہیں، اس نے ملک کی معیشت تباہ کردی بلکہ ملک ہر طرف سے نیچے چلا گیا‘۔

میزبان سے پوچھا کہ جنرل باجوہ ٹی وی پر آکر تسلیم کر چکے ہیں کہ فوج بطور ادارہ سیاست میں ملوث رہی ہے، سابق وزیراعظم کی حیثت سے آپ سمجھتے ہیں ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے تو عمران خان نے کہا کہ ’ان کے اوپر بالکل بلکہ فوج کے اندر بیٹھ کر ان کے اوپر انکوائری ہونی چاہیے کہ ان کے اپنے بیان جو انہوں نے دیے ہیں اور بڑے فخر اور بڑے تکبر سے کہ میں نے فیصلہ کیا ملک کے یہ حالات تھے جیسا کہ وہ معیشت کے ماہر ہوں‘۔

عمران خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس پر اندر سوچنا چاہیے، اس سے عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے، جو ساری قوم سمجھتی تھی کہ جنرل باجوہ کی وجہ سے حکومت گری تھی تو اب انہوں نے خود تسلیم کرلیا اور اس چیز سے پردہ ہی ہٹا دیا‘۔

اپنی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو شک تھا بلکہ شک بھی نہیں اور لوگوں کو واضح ہوگیا تھا کہ آرمی چیف نے حکومت نے گرائی ہے‘۔

دہشت گردی پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں نے 2021 کی گرمیوں سے جنرل باجوہ کو خبردار کرتا گیا کہ افغانستان سے امریکی جائیں گے تو پاکستان پر اس کا اثر پڑے گا اور ہمیں تیاری کرنی چاہیے‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں ہم بچ گئے، اس سے بھی زیادہ دہشت گردی ہونی تھی اگر افغانستان کی فوج ہتھیار نہ ڈالتی اور خانہ جنگی ہوجاتی تو پاکستان پر اس کے اور اثرات ہونے تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سیکیورٹی کا کام جنرل باجوہ کا تھا اور ان کو میں کہتا رہا اور اپنی کابینہ کو بھی بتایا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے میٹنگز بھی کی اور ہماری سوچ تھی کہ جب طالبان قبضہ کریں گے تو ٹی ٹی پی پاکستان آئے گی کیونکہ اس نے پاکستان آنا تھا جو اہل خانہ کے ساتھ مجموعی طور پر 30 سے 40 ہزار لوگ تھے‘۔

کیا جنرل باجوہ ایک کامیاب آرمی چیف تھے یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ ’جنرل باجوہ سے ہمارے دور میں، جب ہم کہتے تھے ایک پیج پر ہیں تو کئی چیزوں پر حکومت مؤثر ہوجاتی ہے کیونکہ فوج ایک منظم ادارہ ہے‘۔

میزبان نے عمران خان سے سوال کیا کہ اگر آپ گرفتار ہوتے ہیں تو کیا اسی جیل میں رہنا پسند کریں گے جہاں نواز شریف کو رکھا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ’گرفتاری پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، جیل جانے سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے‘۔

خیال رہے کہ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے گزشتہ روز مقامی روزنامہ میں ’عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں‘ کے عنوان سے کالم میں سابق وزیر اعظم کی سابق آرمی چیف سے ہونے والی دو ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ چند اہم انکشافات اور دعوے بھی کیے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ عمران خان کی جنرل باجوہ سے پہلی ملاقات 22 اگست کو ہوئی جو بری طرح ناکام ہوئی اور دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی اور صدر مملکت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہ ملاقات بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔

انہوں نے کالم میں دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے عمران خان کو اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا اور ان سے کہا تھا کہ ’آپ اسمبلی میں رہیں، آپ کو دوسرا موقع مل جائے گا‘ لیکن عمران خان نے میرا میسج پڑھ کر جواب نہیں دیا اور یوں ان سے رابطہ ختم ہوگیا۔

کالم کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی حکومت نہیں گرائی بلکہ ہمارا جرم صرف یہ تھا کہ ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں، میں اگر اپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے سوٹ ایبل تھا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دی اور مشکل لیکن درست فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے بھی عمران خان کو روکا لیکن وہ نہیں مانے اور الٹا ہم سے کہہ دیا کہ ان کے خلاف کیسز ختم کروائیں اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیسز ختم کرائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button