ColumnJabaar Ch

انتخابات،آئین اوررکاوٹیں .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

ہمارااسلام کامل دین اور رہتی دنیا تک ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔رہنے سہنے کے طریقے، قوانین اورشعائرہرچیز قرآن اورحدیث میں درج ہیں۔ سب کچھ پندرہ سو سال پہلے نازل کردیا لیکن اس کے باوجود دین جامد ہے اور نہ ہی زندگی۔پندرہ سوسال پہلے اور آج کی زندگی،اس کے تقاضے، ضروریات اورقوانین میں زمین اورآسمان سے بھی زیادہ کا فرق پھر بھی ہمارا دین قابل عمل ہے۔ رہتی دنیا تک کی ضروریات کے مطابق ارتقائی عمل کیلئے اجتہاد کا تصوربھی اسی دین میں رکھ دیا گیا۔یہی اجتہاد ہے کہ ہمارادین وقت کے تقاضوں کے مطابق ہررہنمائی فراہم کرتا ہے،اسی طرح ریاستوں کا نظام چلانے کیلئے آئین لکھے جاتے ہیں۔ہمارا بھی ایک آئین ہے جو ہمیں ریاستی معاملات چلانے کیلئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ آئین بھی جامد نہیں ہے۔اس آئین میں ملک کی ضرورتوں کے مطابق ترمیم کا طریقہ کارلکھ د یا گیا ہے ۔ہر نئی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اس آئین میں تبدیلی کی جاتی ہے ۔نئے قانون بنالیے جاتے ہیں ۔کھیل کے قوانین بدل دیے جاتے ہیں۔یہی زندگی کا فلسفہ ہے کہ ثبات اک تغیر کوہے زمانے میں ۔
پاکستان کو بنے 75اور آئین کو بنے 50سال ہوگئے ۔آئین میں ریاست کی ضرورتوں کے مطابق اب تک پچیس ترامیم کی گئیں ۔یہ آئین یہاں خاموش ہوتا ہے ۔یہاں کوئی نئی صورتحال جنم لیتی ہے وہیں سپریم کورٹ کو اس آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی اورمائی لارڈ کے لکھے حروف حرف آخر۔اس وقت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جو ہمیں نئے قانون اور رُول آف دی گیم بنانے کاتقاضا کررہی ہے۔اور طے ہے کہ نئے رُول بنانے کیلئے بات چیت لازمی اور سوچ بچارضروری ہے لیکن آجکل سب کی بول چال بند ہے اس لیے مسئلہ اوربھی زیادہ گھمبیر ہوچکا ہے
۔عمران خان صاحب نے وقت سے پہلے دوصوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ملک کوایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے جو صورتحال بات چیت سے حل نکالنے کا تقاضا کررہی ہے۔ہمارے ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایسے وقت میں ہوئے ہوں جب وفاقی حکومت موجودہو یا کسی اور صوبے میں کوئی حکومت قائم ہو۔ پاکستان میں پہلے جب بھی عام انتخابات ہوئے اس وقت پورے ملک میں نگران حکومتیں موجود ہوتی تھیں۔نوے کی دہائی میں ایسا ہوتا رہاہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات ایک دن اور چاروں اسمبلیوں کے الیکشن قومی اسمبلی کے دویاتین دن بعد ہوتے تھے لیکن خرابی یہ تھی کہ جو جماعت قومی اسمبلی کا الیکشن جیت جاتی وہی جماعت صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بھی جیت جاتی کیونکہ ملک میں ایک ماحول بن جاتا تھا کہ کس کی حکومت آئی ہے اس بات کو محسوس کیا گیا اوراس خرابی کو دورکرلیا گیا اورپھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے شروع کردیے گئے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی وقت میں مرکز اور صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں دیکھی جانے لگیں ۔دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں بھی ایسے ہی نتائج آئے کہ مرکزاور دوصوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں باپ کی حکومت بن گئی۔
اب پھر ایک ایسا مرحلہ درپیش ہے جو نئی صورتحال میں نئے قوانین کا متقاضی ہے۔میں ذاتی طورپر آئین کے مطابق ہرکام کا وکیل ہوں۔اب یہ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہوجاتی ہے تونوے دن میں الیکشن کروانا لازمی ہے۔یہ بات آئین کہتا ہے توہم ماننے کے پابند ہیں لیکن آئین صرف یہی نہیں کہتا ۔آئین یہ بھی کہتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے وقت نگران حکومت بنائی جائے گی اس نگران حکومت کی موجودگی میں انتخابات کروائے جائیں گے تاکہ انتخابات کی شفافیت متاثر نہ ہو۔اب جب سارے ملک میں حکومتیں ایک ہی وقت میں اپنی مدت پوری کرتیں توصورتحال بالکل ایسی ہی ہوتی کہ پورے ملک میں آئین کے مطابق نگران حکومتیں موجود ہوتیںجو الیکشن کی معاونت کرتیں اور نئی حکومتیں بن جاتیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔اس وقت دوصوبوں میں اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں اور آئین کے مطابق ان صوبوں میں نگران سیٹ اپ موجود ہے۔ یعنی صوبوں میں آئین کا یہ تقاضا پوراہوچکا ہے لیکن ایک نئی صورتحال یہ ہے کہ وفاق میں اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت موجود ہے جس کی مدت ابھی پوری نہیںہوئی یعنی مرکز میں نگران سیٹ اپ والا تقاضا پورا نہیں ہورہاتو اس کا کیا کرنا ہے؟اس سوال کا جواب تو درکار ہے یا نہیں ۔اس سوال کے جواب کیلئے بات چیت سے اس بات پر اتفاق کرنا لازمی ہے کہ نئی صورتحال کو کیسے ڈیل کیا جائے لیکن اس وقت سب کی بول چال بند ہے۔اس مسنگ لنک پرآج کوئی بات نہیں کررہا لیکن اگر کل کو اسی مسنگ لنک کے ساتھ دوصوبائی اسمبلیوں میں الیکشن ہوگئے توکیا سب لوگ اس کو تسلیم کرلیں گے؟اگر تو سب جماعتوں کو یہ بات قبول ہے کہ مرکز میں ایک حکومت ہوتے ہوئے دو صوبوں میں الیکشن کے نتائج سب قبول کریں گے تواس پرکوئی معاہدہ کرلیا جائے تاکہ کل کو رونے سے بہتر ہے کہ آج بیٹھ کر اس پربات کرلی جائے۔
ویسے تویہ ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ ہم چلتی حکومتیں ختم کرکے صرف الیکشن کیلئے نئے لوگ لے کرآتے ہیں اس مشق کے باوجود آج تک شفاف الیکشن ملک میں ہوہی نہیں سکے۔جب نتائج اسی طرح متنازع ہی رہنے ہیں تو اس پر ہی اتفاق کرلیا جائے کہ نگران سیٹ اپ کے بغیر ہی الیکشن کروادیے جایا کرینگے۔ امریکہ ہویابرطانیہ۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی ایسے کسی نگران سیٹ اپ کا تصور نہیں۔الیکشن کمیشن اتنا طاقتورہے کہ کسی حکومت کی مجال نہیں کہ ٹانگ اڑاسکے لیکن ہمارے ہاں صورتحال یکسرمختلف بلکہ مکمل الٹ ہے۔میرے خیال میں تو وقت آگیا ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے یہ نگران سیٹ اپ والا قانون ختم کرکے بہت سے فسادات کا خاتمہ کردیا جائےکیونکہ نگران سیٹ اپ کی تعیناتیاں ایک الگ قسم کا فساد ہی تو ہے ۔آپ سب یہ فساد پنجاب میں وزیراعلیٰ اورکابینہ کی تشکیل میں دیکھ ہی چکے ہیں۔اگر اسی طرح دوصوبوں کے الیکشن ہوجاتے ہیں تو ایک مسئلہ اور بھی حائل رہے گا۔یہ معاملہ لیول پلینگ فیلڈ کا ہوگا۔ہمارے انتخابی قانون میں ایک شق یہ بھی شامل فرمائی گئی ہے کہ کوئی بھی حکومتی عہدہ رکھنے والا شخص،وزیراعظم، وزیر مشیروغیرہ کسی الیکشن کی مہم نہیں چلا سکتا۔اب آپ سوچیں کہ عمران خان صاحب کو تواس قانون کے مطابق آزادی ہوگی کہ وہ اپنی جماعت کو لیڈ کریں ۔جلسے کریں جلوس کریں الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشنز پر جائیں لیکن یہ سہولت وزیراعظم شہبازشریف یا اس کی کابینہ کے ارکان کو میسر نہیں ہوگی۔تو کیا ان کا سوال جائز نہیں ہوگا کہ ان کو کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟یہ صورتحال بھی نئی ہے کہ پہلے ضمنی الیکشنز میں یہ ضابطہ لاگو ہوتا تھا تو حکومتیں برداشت بھی کرلیتی تھیں کہ ضمنی الیکشن ہے چلیں خیر ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ تھے توسپریم کورٹ نے انہیں الیکشن کے عمل سے باقاعدہ ایک حکم کے ذریعے باہر کردیا تھا بلکہ ان کو کیرٹیکروزیراعلیٰ تک کہہ دیا تھا۔اور وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔تو اس ایشوپر بھی بات چیت لازمی ہے۔
ایک بات اورہے کہ اگر اس وقت دوصوبوں میں الیکشن ہوکر حکومتیں بن جاتی ہیں توجب چند ماہ بعد قومی اسمبلی اپنی مدت پورے کرکے الیکشن میں جائے گی تومرکز میں تونگران حکومت ہوگی لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسی نہ کسی پارٹی کی حکومتیں ہوں گی اور وہ پارٹی بھی الیکشن لڑرہی ہوگی اوراس کی مخالف پارٹی بھی میدان میں ہوگی۔یہ بھی ایک نئی صورتحال ہوگی تو کیا اس کو ایسے ہی چھوڑاجاسکتا ہے؟کیا اُس وقت آئین کا تقاضا نہیں ہوگا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوامیں بھی نگران حکومتیں الیکشن کروائیں؟اس وقت آئین کا تقاضا کیسے پوراہوگا؟ آج اگر آئین کا تقاضا دوصوبوں میں الیکشن ہے تو اسی آئین کے تقاضوں میں ہر عام انتخابات کے وقت نگران سیٹ اپ بھی ہے ۔توکیا یہ تقاضا پورانہ ہونے پر بھی آرٹیکل چھ لگے گا؟ میرے خیال میں وزارت خزانہ کاپیسوں سے انکار،دفاع کا سکیورٹی اور ہائی کورٹ کا جوڈیشل افسروں سے انکار سے بڑے مسائل یہ آئینی رکاوٹیں ہیں۔ان رکاوٹوں کو دورکرنے کیلئے بات چیت کی ضرورت ہے۔بار دیگرعرض کہ میں الیکشن میں کسی قسم کی تاخیر کی وکالت نہیں کرتا نہ کبھی کروں گا لیکن جوباتیں عرض کی ہیں وہ بھی آئین کا ہی تقاضا ہے۔عمران خان کو فوری الیکشن چاہیے۔اچھی بات ہے ان کا حق ہے کہ دوصوبوں کی حکومتیں توڑچکے اب صبر ناممکن ہے لیکن نئے جنم لینے والے مسائل کا حل توبات چیت اور ضروت کے مطابق نئے قوانین میں سے ہی نکلے گااور اس کیلئے سب سٹیک ہولڈرزکا بات چیت کرنا ضروری ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ اس وقت یہی بول چال بند ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button