ColumnHabib Ullah Qamar

افضل گورو کی پھانسی، انصاف کا خون .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں افضل گورو شہید کی پھانسی کودس سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ان کے یوم شہادت پر نو فروری کو پورے کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیر سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں اور کشمیریوں کی حالیہ تحریک کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھارتی فوج نے پورے کشمیر کو فوجی چھائونی میں تبدیل کئے رکھا۔ حریت کانفرنس جموں کشمیر کے چیئرمین مسرت عالم بٹ سمیت اس وقت قریباً پوری حریت قیادت جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ بھارتی فوج اور کٹھ پتلی حکومت کی کوشش ہے کہ کشمیری قائدین کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد رکھی جائیں تاکہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی قیادت نہ کر سکیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ افضل گورو جیسے شہداء نے کشمیر کی تاریخ میں جو لازوال قربانیاں پیش کی ہیںان کے سبب کشمیری قوم کا ہر نوجوان جذبہ آزادی سے سرشار ہے اور بھارت سرکار کی طرف سے اختیار کئے گئے تمام حربے بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ کشمیریوں کی شہداء سے عقیدت و محبت کا نتیجہ ہے کہ جس طرح افضل گوروکی پھانسی کے وقت کشمیر میں احتجاج کا ماحول تھا بالکل اسی طرح اب بھی کشمیری قوم ہڑتالوں اور احتجاج میں حصہ لے رہی ہے۔ شہید افضل گوروگیارہ برس تک بھارتی جیلوں میں قید رہے اور پھر اچانک انہیں انتہائی رازداری سے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ان کی پھانسی کی اطلاع کشمیری قوم کو بھارتی ٹی وی چینلز کے ذریعہ ملی اور پھر جموں کشمیر کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیریوں میں اس پھانسی کا اتنا شدید ردعمل تھا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جموں کشمیرمیں سخت ترین کرفیو نہ لگایا جاتا تو کشمیر کا ہر چوک تحریر سکوائر کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔
محمد افضل گورو کی زندگی علم، فن اور جدوجہد سے عبارت تھی۔47 سالہ افضل گورو شمالی قصبہ سوپور کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مقامی سکول سے 1986 میں میٹرک کرنے کے بعد ہائر سیکنڈری کیلئے سوپور کے مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ میں داخلہ لیا۔جب کشمیر میں 1990 کے آس پاس مسلح تحریک شروع ہوئی تو افضل ایم بی بی ایس کے تھرڈ ایئر میں تھا۔ اسی اثنا میں انہوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ جدوجہد آزادی میں بھرپور انداز میں شریک رہے اورپھر1991میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیکر وہاں سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔افضل دہلی میں سات سالہ قیام کے بعد 1998میں اپنے گھر کشمیر واپس لوٹ آئے۔وہ وادی میں واپس لوٹ کر شادی کے بعد محض اپنے دوائیوں کے کاروبار میں مصروف تھے لیکن بھارتی فورسز کے ظلم و زیادتیوں کا عالم یہ تھا کہ ماضی میں جے کے ایل ایف کے ساتھ ملکر جدوجہد آزادی میں حصہ لینے پر انہیں ہر روز مقامی آرمی کیمپ میں حاضر ہونا پڑتا اور ٹاسک فورسز کی طرف سے جان لیوا زیادتیاں کی جاتیں۔اس دوران کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انہیں مردہ حالت میں پھینک دیاجاتا رہا۔13دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، 15دسمبر کوانہیں ادویات لیکرسوپور جاتے ہوئے گرفتار کر لیاگیا اور بھارت لیجاکر جیل میں بندکر دیا گیا۔افضل گورو کا معاملہ غیر منصفانہ اور شکوک و شبہات سے بھرا پڑا ہے۔گرفتاری کے بعد سے مئی 2002 تک افضل گورو کو کوئی وکیل فراہم نہیں کیا گیا۔ان کے خلاف سب سے بڑی شہادت کے طور پر جو اعترافی بیان پیش کیا گیااور جس سے انہوںنے واضح طور پر انکار کیا، اس کی قلم بندی کے وقت افضل گورو کا کوئی قانونی مشیر موجود نہیں تھا۔18 دسمبر 2002 کو افضل گورو، ایس آر گیلانی اور شوکت حسین کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں سزائے موت سنا ئی گئی۔بعد ازاں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کے نتیجے میں ایس آر گیلانی اور افشاں گیلانی کو باعزت بری اور شوکت حسین کی سزائے موت کو 10 سال کی سخت سزا میں تبدیل کر دیاگیالیکن افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتاہے۔
استغاثہ کے 80 گواہان میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہیں دیا کہ افضل گورو کا کسی عسکری تنظیم سے کبھی کوئی تعلق رہا ہو یا اس نے کبھی کوئی معاونت فراہم کی ہو۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت واضح طور پر یہ بات لکھی کہ اگرچہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا مگر معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے سزائے موت ضروری ہے۔افضل گورو کو اس کیس
میں اپنے دفاع کیلئے صحیح معنوں میں وکیل دیاہی نہیں گیا۔کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آجاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔خود بھارتی ماہرین یہ کہتے رہے کہ افضل کے خلاف مقدمہ ناقص تفتیش، واقعاتی ثبوت اور پولیس کے مشتبہ کردار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔اس ساری صورتحال پرہم سمجھتے ہیں کہ افضل گورو کی پھانسی انصاف کا خون اور عدالتی قتل تھاجس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ بھارت سرکار کی طرح ان کی عدالتوں میں بھی انصاف کے پیمانے مسلمانوں اور ہندوئوں کیلئے الگ الگ ہیں۔بھارتی قانون میں یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی شخص کو پھانسی دینے سے قبل اس کی ملاقات اہل خانہ سے کروائی جائے گی لیکن افضل کی پھانسی میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ جس وقت انہیں پھانسی دی جارہی تھی وہاں ایک ڈاکٹر، ایک مجسٹریٹ اور جیل حکام کے چند افسران سمیت ایک مولوی صاحب موجودتھے جنہوں نے پھانسی کے بعد انکی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد خاموشی سے دو دن پہلے تیار کی گئی لحد میں اتاردیا گیا۔بعض بھارتی حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ گورو کے اہل خانہ کوسپیڈ پوسٹ کے ذریعہ انکی پھانسی کی اطلاع دے دی گئی تھی مگر ان میں سے کوئی لاش لینے ہی نہیں آیا اس لیے انہیں وہیں دفن کیا گیا ہے تاہم افضل کے اہل خانہ کے مطابق یہ بات سرے سے غلط ہے۔پھانسی کے تین دن بعد تہاڑ جیل حکام کا وہ خط جو دہلی جنرل پوسٹ آفس سے ڈاک کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا موصول ہوا جس میں انہیں گورو کی رحم کی اپیل مسترد ہونے اور پھانسی دیے جانے کی اطلاع تھی۔
کشمیری لیڈر نے اپنے آخری خط میں اہل خانہ کو نصیحت کی کہ وہ ان کی موت پر آنسو نہ بہائیں اور افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو مقام دیا گیا ہے اس کا احترام کریں۔ یہ خط اردو میں لکھا گیا تھا اور شہید کشمیری لیڈر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ افضل کی لکھائی سے مانوس ہیں اور یہ ان کا ہی لکھا گیا ہے۔ بھارتی حکام کی جانب سے افضل کے لواحقین کوپھانسی کے تین دن بعد خط بھیجنا پوری کشمیری قوم سے سنگین مذاق تھا۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے لاشوں کو بھی اپنے ملک میں قید کر رکھا ہے اور پوری کشمیری قوم کے مطالبہ کے باوجود افضل گورو اور مقبول بٹ شہید کے جسدخاکی واپس کرنے کیلئے تیار نہیں۔ایسے ملک کے عدالتی نظام سے انصاف کی کیا امید کی جاسکتی ہے جہاں پھانسیاں اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے دی جائیں اور جہاں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی جیسے درندوں کو تو ہیرو سمجھا جاتا ہو مگر اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کودہشت گردقرار دیکر پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جائے۔کشمیری قوم نے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ افضل گورو اور مقبول بٹ شہید کے جسد خاکی واپس کئے جائیں تاکہ وہ انہیں شہداء کی قبرستان میںدفن کر سکیں۔ مظلوم کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں۔ اسے کشمیریوں کے مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے اس سلسلہ میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔ شہداء کے لہو سے آزادی کے چراغ روشن ہو رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا، مظلوم کشمیریوں کو نو لاکھ غاصب فوج کے ظلم و بربریت سے نجات ملے گی اور وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ان شاء اللہ اپنی زندگیاں گزار سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button