Editorial

آئی ایم ایف سے مذاکرات !

 

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ملک کے اندر ایکسچینج کی قدر کو آزادانہ (فری فلوٹ) کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس پر بدھ سے عمل شروع کر دیا جائے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات ہوئے جن میں تمام اختلافی امور پر بات چیت کی گئی اور رسمی مشن کی ملک میں آمد کا امکان ہے۔ آئی ایم کے تین اہم مطالبات رہے ہیں، زرمبادلہ کی قدر کا آزادانہ تعین ہو، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا اور جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا لہٰذا ان پر عمل کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اِسی کے ساتھ ذرائع ابلاغ نے ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کی گفتگو کوجوڑا جنہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایاہے کہ حکومت نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کی بجائے اب مارکیٹ بیسڈ کرنے فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ ڈالر کو فری فلوٹ کرنا آئی ایم ایف کی لازمی شرط ہے ، اِس فیصلے سے ڈالر کی قیمت بڑھ جائے گی مگر بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہوگا۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے دیگر شرائط پوری کرنے کے لیے کام شروع کردیاہے منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے جس کے تحت متعدد لگژری اشیاء پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے اور 70 ارب روپے کے لگ بھگ اشیاء پر دی جانے والی ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ نان فائلرز کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ تجویز کے تحت یومیہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کی بینک ٹرانزکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہو سکتا ہے، ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل افراد پر مجوزہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ کی سربراہی میں وفد نے مذاکرات کیے۔ پاکستانی وفد نے معاشی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دی اور رواں سال کے لیے مقررہ کردہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور آئی ایم ایف کو سیلاب سے متعلقہ منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات سے آگاہ کیا۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم جولائی 2022 سے ہوگا، گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری جلد ہی کابینہ دے گی، گیس کے شعبے کا گردشی قرض بھی ختم کیا جارہا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی مرحلہ وار بڑھائی جا رہی ہے۔ بجلی کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جائیں گے۔ سرکلر ڈیٹ کے خاتمہ اور بجلی کے سیکٹر کو درست کرنے کے بارے میں رپورٹ کابینہ کے زیر غور ہے، اور اس پر فیصلہ ہو جائے گا۔ سینیٹر اسحٰق ڈار جب پاکستان پہنچے اور انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھایا، تو اُن کا دعویٰ تھا کہ اُس وقت مارکیٹ میں ڈالر جس قیمت پر فروخت ہورہا ہے، ڈالر کی یہ قدر حقیقی نہیں ہے،انہوںنے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے کے قریب لے کرآئیں گے اور بلاشبہ اتحادی حکومت نے مفتاح اسماعیل کے بعد اسحق ڈار کو معیشت کے میدان میں ہی اسی لیے اُتارا تھا تاکہ وہ ڈالر کی قیمت کو قابو کریں ، بلاشبہ اُن کے آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں قدرے کمی ہوئی لیکن پھر بھی دو سو روپے تک نہ پہنچ سکی ۔بدقسمتی سے تمام ممالک میں ایسا ہوتا ہے اور سٹہ بازاور سمگلرز کروڑوں کمانے کے لیے ملک کے اربوں روپے ڈبودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سٹے باز اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والے اِس کھیل کے کھلاڑی ہوتے ہیں اور وہ کسی کے قابو نہیں آتے ، گر کسی کو شبہ ہے کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ دینے سے معاشی حالات بہتری کی جانب جائیں گے تو یاد رہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں جب ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑاگیا تھا تب موجودہ اتحادی حکومت نے ہی اُس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی لہٰذا معاشی حالات اِس نہج پر آگئے ہیں کہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے مطالبے پر ڈالر کو کھلا چھوڑنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے، بلاشبہ اِس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی۔ اسحق ڈار چونکہ ہمیشہ سے یہی دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اُن کا آئی ایم ایف سے نمٹنے کا بہت پرانا تجربہ ہے لہٰذا وہ اپنی شرائط پر اُنہیں قائل کرلیں گے مگر یہ دعویٰ بھی درست ثابت ہوتا نظر نہیںآرہا کیونکہ ڈالر کو آزاد چھوڑنے کی یقین دہانی کرادی گئی ہے اسی طرح پٹرول، بجلی اور گیس کے معاملے پر بھی جو شرائط آئی ایم ایف نے عائد کی تھیں انہیںمن و عن تسلیم کرنے کا اعادہ کیاگیا ہے،پس آئی ایم ایف ڈالر دے گا لیکن عام پاکستانی کی جان لے لے گا کیونکہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی، صنعت اور ٹیوب ویلز کی بجلی کی سبسڈیز کو ختم کیا جائے اور وہ تمام اقدامات کیے جائیں جو پہلے ہی موجودہ حکومت کرنے کے بعد اِن کو اپنا سیاسی نقصان قرار دے رہی ہے۔ حالیہ دنوںمیں ملک میں ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے درآمدی کارگو کی کلیئرنس رکی ہوئی ہے یا تاخیر کا شکار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کو خام مال کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ موجودہ صورت حال برقرار رہی تو ڈالر کا ریٹ 250 سے 300 تک جا سکتا ہے جبکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈالر کی قیمت 255 کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے اور جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر عام آدمی پر پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی کا شکار ہے، یہی نہیں درآمدات اور برآمدات بھی متاثر ہوں گی اور معیشت کا پہیہ مزید سست ہوگا، بے روزگاری میں اضافہ ہوگا غرضیکہ وہ تمام خدشات بتدریج حقیقت کی طرف جائیں گے جن کو محسوس کرکے لرزہ طاری ہوتا ہے۔آج ڈالر نے حکومت اور حکومت نے عوام کو نچایا ہوا ہے، نجانے کیوں بروقت ایسے اقدامات نہیں کیے گئے جن کے نتیجے میں ڈالر کی بربادی رک جاتی، کہاجاتا ہے کہ سمگلروں اور ہنڈی والوں نے ملک کا نقصان کیا ہے تو پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں ایسا کرنے ہی کیوں دیاگیا۔ بہرکیف ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عوام پر ایک نئی آزمائش اُترنے والی ہے اور پھر دعویٰ کیاجائے گا کہ اپنا سیاسی نقصان کرکے ملکی معیشت کو بچالیاگیا ہے مگر اِس دوران عوام کا گلا مزید گھونٹ دیاجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button